گھڑی چور کپتان اور ڈاکو وزیراعلی کے مابین اختلافات

عمران خان کی جانب سے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان اور پرویز الٰہی کی جانب سے اس پر فوری عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد اب بدنام زمانہ گھڑی چور اور پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے مابین اسمبلی تحلیل کرنے پر اختلافات کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ پنجاب میں جہاں حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں وہیں دوسری جانب عمران خان کی منگل کو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے لاہور میں طے شدہ ملاقات نہ ہو پائی کیونکہ پرویز الہی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آباد چلے گئے تھے۔ اس دوران یہ اطلاع بھی آئی کی ان کی وفاقی دارالحکومت میں کچھ اہم عسکری شخصیات کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ پھر وزیر اعلی کی ایک ویڈیو بھی سامنے آگئی جس میں وہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل باجوہ کی شان میں قصیدے بیان کر رہے ہیں۔ پرویز الہی نے یہ ویڈیو تب جاری کی جب عمران کے ایما پر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم جنرل باجوہ کے خلاف دوبارہ سے غدار وطن کا ٹرینڈ چلا چکی تھی۔

بتایا جاتا ہے کے پرویز الہی کے اسلام آباد چلے جانے کے بعد عمران خان نے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کو اپنی زمان خان رہائش گاہ پر بلایا اور تفصیلی ملاقات کی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ یاد رہے کہ سبطین خان کا تعلق میانوالی سے ہے اور انہیں عمران خان کے کافی قریب خیال کیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پچھلے چار مہینے سے مسلسل جاری ہے اور اپوزیشن نہ تو وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک داخل کر سکتی ہے اور نہ ہی گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اسمبلی کا اجلاس ختم کرنے اور بلانے کا اختیار سپیکر سبطین خان کا ہے، پرویز الہی کا نہیں۔ آئین کے مطابق اگر عمران کی خواہش پر پنجاب اسمبلی توڑی جانی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک بار اجلاس ملتوی کیا جائے اور دوبارہ بلایا جائے۔ یہی وہ وقت ہے جس کا انتظار اپوزیشن کو بھی ہے اور پرویز الہی کو بھی کیونکہ دونوں نہیں چاہتے کہ اسمبلی توڑی جائے۔ لہذا جیسے ہی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلانے کے لیے ختم کیا جائے گا، اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد داخل کروا دی جائے گی اور آئین کے تحت اس پر ووٹنگ مکمل ہونے تک اسمبلی توڑنا ممکن نہیں رہے گا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پرویز الہی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے میں آ چکے ہیں اور ان کا اسمبلی توڑنے کا کوئی موڈ نہیں ہے اور اسی لئے وہ کچھ طے ہو جانے تک عمران خان کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مونس الہی اور پرویزالٰہی کی جانب سے عمران کے ایک اشارے پر اسمبلی توڑنے کے یقین دہانیاں ہوائی ہیں اور حقیقت میں ایسا نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہی نے پی ڈی ایم کی وزارت اعلی کی آفر قبول کر کے اس لیے چھوڑ دی تھی کہ انہیں شک تھا کہ یہ حکومت صرف تین ماہ چلے گی۔ وہ عمران کے ساتھ بھی اسی لئے گئے کہ ان کو یقین تھا کہ یہ حکومت اگست 2023 تک چلے گی۔ ایسے میں اب جب کہ عمران خان انہیں اسمبلی توڑنے کا کہہ رہے ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر کپتان سے پنگا ڈال ہی لیں گے جس سے ناراضی پیدا ہو جائے اور انہیں حکم عدولی کا بہانہ مل جائے۔

یاد رہے کہ 29 نومبر کو پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور یپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا تاکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکا جا سکے، اسی روز وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے بھی دوبارہ ملاقات کی اور صوبے میں ممکنہ سیاسی بحران کو روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ دوسری جانب پرویز الٰہی اور عمران کے مابین کئی دن سے طے اہم ملاقات 29 نومبر کو نہ ہو سکی حالانکہ سابق وزیر اعلیٰ راولپنڈی میں فوج کی کمان کی تبدیلی کی تقریب میں شرکت کے بعد دوپہر کو شہر واپس آ گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران سے ملنے کی بجاۓ پرویز الہی سپیکر سبطین خان سے ملے اور ان کو پیغام دیا کہ تحمل سے کام لیں اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل میں جلدی بازی نہ کریں۔

بتایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے راولپنڈی میں نئے آرمی چیف کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد پرویز الہی نے عمران خان کے قریبی ساتھی پرویز خٹک سے ملاقات کی اور انہیں مشورہ دیا کہ اسمبلیوں سے استعفوں پر جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوگا۔ دوسری جانب فواد چوہدری اعلان کر چکے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کو حتمی شکل دینے کے لیے پرویز الٰہی، عمران سے ملاقات کریں گے۔ لیکن تاحال پرویز الہی اس ملاقات سے بچ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کق دعویٰ ہے کہ تحلیل کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے مابین سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

Back to top button