شہبازکے وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف پارلیمنٹ کیوں نہیں جاتے؟

8 فروری کے الیکشن میں لاہور کے حلقہ این اے 130 سے کامیاب ہونے کے بعد نواز شریف نے پارلمنٹ میں بطور ایم این اے حلف تو اٹھایا لیکن اس کے بعد سے اب تک وہ ورک فرام ہوم کر رہے ہیں، اسپیکر کے انتخاب اور سینیٹ الیکشن کے مواقع پر نواز شریف ووٹ دینے پارلمنٹ تو گئے لیکن پارلمنٹ میں کھڑے ہوکر اپنے حلقے سمیت قوم کی ترجمانی ابھی تک نہیں کی۔

تاہم نون لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف خود بھی پارلمنٹ آنا نہیں چاہتے، ایسے کئی سیاست دان ہیں جو جیتنے کے باوجود پارلیمنٹ نہیں آتے اور غیرحاضر رہتے ہیں، نواز شریف پارٹی صدر ہیں وہ جائیں یا نہ جائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کا بھائی وزیر اعظم ہے وہ گھر بیٹھے حکومتی معاملات دیکھ رہے ہیں۔’نواز شریف اب کینگ میکر ہیں وہ ورک فرام ہوم کریں یا کچھ اور اس سے نواز شریف کی سیاست کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اپنا زیادہ وقت جاتی امرا اپنے گھر میں گزارتے ہیں، وہ پارلیمنٹ میں جاکر کیا کریں گے، جہاں حکومتی معاملات میں مداخلت یا مشاورت درکار ہو وہ کرتے ہیں بلکہ جو بھی اہم فیصلے مسلم لیگ ن کی حکومت کرتی ہے وہ نواز شریف کی مرضی سے ہوتے ہیں۔‘

پارٹی ذرائع کا مزیدکہنا ہے کہ نواز شریف ’ورک فرام ہوم‘ کی حالت میں پارٹی کی از سر نو تنظم سازی میں مصروف ہیں، اور اس حوالے سے انھوں نے آج کل ڈسٹرکٹ کی سطح پر میٹنگز کا آغاز بھی کردیا ہے۔’اب چونکہ ورک فرام ہوم سے کام ہوجاتا ہے تو ضروری نہیں کہ سٹرکوں پر باہر نکل کر عوام کو اپنی کارکردگی بتائی جائے، اب ہر چیز میں جدت آگئی ہے سیاسی جماعتوں میں بھی جدت آگئی اور ان کے رہنما بھی جدت کے اس نکتے کو سمجھتے ہیں۔‘

تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ن لیگ کی کارگردگی پارٹی صدر نواز شریف کے ورک فرام ہوم کی وجہ بنی؟سینئر تجزیہ نگار سلمان غنی کے مطابق ورک فرام ہوم نواز شریف کی عمر کا تقاضا ہے، ان کی صحت کے کافی مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ ورک فرام ہوم کررہے ہیں مگر وہ حکومتی اجلاس کی صدارت کرتے ہیں، پنجاب میں بھی مختلف اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور سفیروں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں۔’پارلیمنٹ نہ جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف نہیں مل رہا اور وہ اپنی حکومت کی کارگردگی سے خوش نہیں ہیں، انہوں نے کئی بار حکومتی اجلاس میں کہا ہے کہ کتنی بار یہ کہہ کر جان چھڑاتے رہیں گے کہ یہ آئی ایم ایف کہ کہنے پر کررہے ہیں،کب تک آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کی قمیتیں بڑھتی رہیں گی۔‘

سلمان غنی کے مطابق موجودہ مخلوط حکومت میں فیٍصلہ سازی کا مکمل اختیار ن لیگ کے پاس نہیں ہے، اس لیے وہ کیا کیس لے کر عوام کے پاس جائیں، عوام کو کیا بتائیں کہ وفاق اور پنجاب میں قائم ان کی حکومت میں عوام کو ریلیف کیوں نہیں مل رہا، یہی وجہ ہے کہ وہ ورک فرام ہوم کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔سلمان غنی کا کہنا تھا کہ نواز شریف 3 مرتبہ وزیر اعظم رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ہر دور میں عوام کو ریلیف دیا ہے، آج ن لیگ کی کارگردگی ایسی نہیں ہے کہ وہ باہر نکل کر عوام کو بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا ہے، پہلے ادوار میں وہ جب بھی عوام کے پاس گئے ہیں انہوں نے عوام کو بتایا کہ وہ ان کے لیے کیا کررہے ہیں۔’۔۔۔لیکن آج ایسا کچھ نہیں، اب ان کی کارگردگی بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ سیاسی محاذ پر کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں، جاتی امرا ان کا گھر ہے وہ وہاں بیٹھ کر حکومت کو بھی دیکھ رہے ہیں اور حکمراں جماعت کے امور بھی، اسی جماعت کی کارگردگی کے باعث انہیں ورک فرام ہوم کرنا پڑرہا ہے۔‘

Back to top button