کپتان اور سلیکٹرز میں دوریاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟

مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگا کر تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ اب اپنے سلیکٹڈ کپتان سے دوری اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس کی بنیادی وجہ کپتان کی جانب سے معیشت، خارجہ پالیسی اور عسکری عہدوں پر تقرریاں کرتے ہوئے کپتان کی من مانیاں ہیں جن کے نتیجے میں ملک کے لیے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے اسکے مشوروں کے بر عکس کپتان کے من مانے فیصلوں سے پاکستان سنگین بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے اس لئے اب آپریشن کلین اپ ہی تمام مسائل کا آخری حل ہے۔ کئی برس عمران خان کو پاکستان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کے بعد جیسے تیسے کر کے ملک کا وزیراعظم تو منتخب کروالیا گیا مگر اب ہر محاذ پر تباہی اور بربادی ہوتے دیکھ کر سلیکٹرز نے کپتان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی، معاشی اور خارجہ پالیسی جیسے حساس معاملات کو لے کرکے کپتان اور سلیکٹرز میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں نے پیشگوئی کی ہے کہ آنے والے چند مہینوں میں آپریشن کلین اپ کے تحت ملکی سیاست ہی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی اور اور عسکری معاملات میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کپتان نے اہم معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے مشورے کو نظرانداز کرتے ہوئے چند ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے ملک کو کئی اندرونی و بیرونی چیلنجز اور معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بتایا تھا کہ پاکستان کو ہر صورت امریکہ اور سعودی عرب سے بنا کر رکھنا ہوگی ورنہ خارجی اور معاشی میدان میں بد ترین حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ پاکستان عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے ایران، قطر، ملائیشیا، ترکی اور چین کے ساتھ واجبی تعلقات رکھے تاکہ امریکہ اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کی مدد سے ملکی مفادات کا بہتر طریقے سے دفاع کیا جاسکے مگر کپتان نے ان گائیڈلائنز کو نظر انداز کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، یہی نہیں بلکہ خلیجی ممالک سے مخاصمت رکھنے والے قطر کے ساتھ بھی بھی دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک اور امریکا پاکستان سے ناراض ہو چکا ہے۔
ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ نے وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ سعودی عرب مالی امداد دینے کے لیے تیار ہے لہٰذا منہ بھر کر امداد مانگیں لیکن کپتان نے کمال خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امداد کی بجائے تجارت کی بات کی جس کے نتیجے میں میں معاشی مسائل ختم ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہو گئے۔
دوریوں کی ایک اور بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کپتان نے امریکا اور سعودی عرب کو اعتماد میں لیے بغیر اعلی ترین عسکری عہدے پر ایک غیر سنی العقیدہ شخصیت کا تقرر کیا۔ کپتان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے ہمسایہ برادر ملک ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر رکھنے کے لیے یہ اہم قدم اٹھایا۔ تاہم سعودی عرب اور امریکہ کے علاوہ پاکستان کی دیگر اعلی عسکری شخصیات بھی کپتان کے اس فیصلے کے حق میں نظر نہیں آتیں۔ عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں میں عراق میں امریکی حملے میں جان کی بازی ہارنے والے ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین کچھ عرصہ قبل پاک ایران سرحد پر کارروائیاں کرنے والی جہادی تنظیم جند اللہ کے معاملے پر گرمی سردی ہوئی تھی اس لیے جنرل باجوہ کا زیادہ جھکاؤ ایران کی نسبت سعودی عرب کی جانب ہے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کپتان ان اینڈ کمپنی کی جانب سے معاملے کو الجھانے اور طول دینے کے نتیجے میں بھی پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر کئی چیلنجز در پیش ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ جنرل باجوہ پر بھرپوراعتماد کرتے ہیں اور کئی اہم معاہدوں اور سمجھوتوں میں انہیں گارنٹر تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے کپتان کی جانب سے جنرل باجوہ کی توسیع کا معاملہ خراب کرنے پر بھی سعودی عرب اور امریکہ خوش نہیں ہیں۔ ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی کپتان سے دوریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں جس کا بڑا ثبوت حکومتی اتحادیوں کی طرف سے بڑھتا ہوا اظہارناراضی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button