افغان طالبان TTP کو اپنی سرزمین سے کیوں نہیں نکال رہے؟

پاکستانی عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت ٹی ٹی پی والوں کی پاکستان مخالف کارروائیوں سے اس لئے صرف نظر کر رہی ہے کیونکہ یہ ان کے برے دنوں کی ساتھی ہے اور مستقبل قریب میں داعش سے نمٹنے کے لئے بھی اسے ٹی ٹی پی کی مدد درکار ہوگی، لہذا حکومت پاکستان کے پرزور مطالبے کے باجود افغان حکومت طالبان دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرر ہی ہے جس سے پاکستانیوں کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ چند برس پہلے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی روکنے کے لیے متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تھا جو کہ کامیاب رہا تھا۔ تاہم عسکری ماہرین کے بقول اب افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستانی طالبان ریاست پاکستان کے لیے ایک خطرہ بن کر ابھر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ انہیں افغانستان سے ملنے والی شہہ ہے۔ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجو افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور طالبان کے اس دعوے کے باوجود کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ طالبان جن کا اس وقت افغانستان پر کنٹرول ہے، ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا انہیں ملک سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس حوالے سے سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ر) نعیم لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان اگر یہ مطالبہ کرے بھی کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اس کے حوالے کیا جائے تو اس پر طالبان حکومت راضی نہیں ہے، اور نہ ہی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو سابقہ ادوار میں پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستان پر دباؤ رکھنے کے لیے قائم کیا تھا لیکن افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات میں انہوں نے افغان طالبان کا ساتھ دیا۔ اور اب طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان کے بہت قریب بھی ہیں۔ ایسے میں جب کہ طالبان اندرونی طور پر مشکلات کا شکار ہیں اور انہیں داعش جیسے دشمنوں کا سامنا ہے، جس کے مقابلے کے لیے انہیں ٹی ٹی پی جیسے اتحادیوں کی ضرورت بھی ہے۔ اس لیے یہ بات منطقی ہے کہ وہ ان سے بگاڑ پیدا نہیں کریں گے۔ اور اسی لیے جب پاکستان نے یہ معاملہ طالبان کے سامنے رکھا، تو انہوں نے کہا کہ وہ انہیں نکال تو نہیں سکتے لیکن اگر پاکستان ان سے بات چیت کر کے معاملات طے کر لے تو وہ یہ سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ مذاکرات طالبان کی جانب سے پیش کی جانے والی سخت شرائط کے بعد ناکام ہو چکے ہیں اور مذاکراتی عمل ختم ہو چکا ہے۔ خیال رہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی ن9 دسمبر کو ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
عمران آرمی چیف کو توسیع دینگے یا کوئی مس ایڈونچر کریں گے؟
جنرل (ر) نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اب صورت حال یہ بن رہی ہے کہ ادھر تو افغان طالبان انہیں اپنی سرزمین سے آپریٹ نہیں کرنے دیں گے اور سرحد کے اس طرف پاکستانی حصے میں فوج انہیں نہیں چھوڑے گی۔ سابق سیکٹری دفاع کو توقع ہے کہ افغان طالبان اپنا یہ وعدہ پورا کریں گے اور ٹی ٹی پی کو افغانستان کے اندر سے کارروائیاں نہیں کرنے دیں گے۔ بقول ان کے اس بات کے شواہد بھی مل رہے ہیں کہ جو حملے پاکستان میں ہو رہے ہیں ان میں ٹی ٹی پی کے پاکستان میں موجود سلیپر سیلز ملوث ہیں جنہیں ہو سکتا ہے کہ اب بھی بیرونی مدد اور حمایت حاصل ہو۔ لیکن پاکستان اور تحریک طالبان دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا، افغان طالبان کے لیے مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے۔ جنرل نعیم کے خیال میں اگر کسی مرحلے پر افغان طالبان کو محسوس ہوا کہ ٹی ٹی پی کسی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ تحریک طالبان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیں گے۔
دوسری جانب سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے ہونے والے مذاکرات سے پاکستان کو بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور انہوں نے کچھ تعطل کے بعد پھر سے اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تمام تر اخلاص کے باوجود افغانستان میں طالبان کی امارت بھی اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ کوئی تعاون کرنے پر تیار نہیں ہے۔ بقول سہیل وڑائچ، افغان طالبان پاکستانی طالبان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ اور ٹی ٹی پی نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ وہ طالبان کا حصہ ہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اس مسئلے پر پیش رفت کی جو امید تھی وہ پوری نہیں ہو گی۔