انڈیا کو ہرانے والی پاکستانی فوج کو اب زیادہ چوکنا کیوں ہونا ہو گا ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کے بعد پاکستان کا ایران سے لگنے والا بلوچستان اور سیستان بارڈر بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے لہذا اب ہماری افواج کو اور بھی زیادہ چوکنا رہنا ہو گا تاکہ وہاں پر سرگرم عمل عسکریت پسند تنظیمیں اس صورت حال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
عرفان صدیقی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے بھڑکائی گئی آگ کب ٹھنڈی پڑتی ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ ایران کی جانب سے اسرائیلی اور امریکی حملوں کے رد عمل میں جوابی حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اِس سے پہلے بھارت نے خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے کیلئے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا۔ دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی پہلگام حملے کے حوالے سے بھارت کا بیانیہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھتی رہیں کہ کوئی ثبوت تو لائو لیکن مودی، اپنے سر پر فتح کی کلغی سجانے کیلئے، پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرچکا تھا سو وہ 7 مئی 2025 کو پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ فتح کی کلغی تو نہ سجی لیکن عبرت ناک ’’شکست کا سیاہ داغ‘‘ ہمیشہ کے لئے اُس کے ماتھے پر چپک گیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اِس پانچ روزہ جنگ نے پاکستان کو سرخرو کیا اور اِس کے لئے نئے امکانات کے دریچے کھول دئیے۔
اندرونی اور بیرونی ارتعاش کے باوجود، استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اقتصادی صورت حال کی بہتری اور عوامی ترقی وخوش حالی کے ہدف کے حصول میں، مکمل نہ سہی، حکومت نے جزوی کامیابیاں ضرورحاصل کیں۔ کم ازکم پستی کی طرف لڑھکنے اور زوال پذیری کا راستہ ضرور روک دیا۔
سینیئر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں نے ہمارے پڑوس میں، ہماری سرحدی لکیر کے اُس طرف ایک آتش کدہ دہکا دیا ہے۔ ایک بڑی جنگ ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیل کو بھارت کی شکل میں ایک نیا کارندہ بھی مل گیا ہے جو اس کشمکش میں کھُل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن نریندر مودی نے ایران پر حملوں کی رسمی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران دشمنی کے حوالے سے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ، ’پاکستان‘ دشمنی کی قدر مشترک بھی رکھتا ہے۔ سو وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان چوکنا رہے اور اپنے دوستوں کو بھی اس صورتِ حال سے پوری طرح باخبر رکھے۔ پاکستان کے ہاتھوں ایک شرمناک شکست کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ مودی شدید داخلی دبائو میں ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی اُسے پَسپائی کا سامنا ہے۔ اُس کے اعصاب پر بڑھتا ہوا دبائو، خباثت میں گندھے اس کے باطن میں سے کسی نئی مہم جوئی کی چنگاری سلگ سکتی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف تک، ایٹمی قوت کے حصول کی جدوجہد میں ہر سیاسی راہنما نے اپنا حصہ ڈالا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کٹھن راستہ، بھارتی ایٹمی پروگرام کے تناظر میں چُنا۔ نواز شریف نے مئی 1998 ءمیں ایٹمی دھماکے بھی بھارتی دھماکوں کے ردّعمل میں کئے۔ ستائیس برس قبل، ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود تھیں۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد تاریخ بہ آواز بلند پکار رہی ہے کہ ہمارے راہنمائوں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ آج ہمیں بھارتی عزائم کے سبب اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی کرنا پڑا ہے اور اس بارے میں قوم متفق ہے۔
وزیر اعظم کی ہدایت پر کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے تین خصوصی کمیٹیاں قائم
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ہمارے خطّے میں نہایت تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی تبدیلیاں ایک بڑے ریکٹر اسکیل کے زلزلے کی طرح، ملکوں کے باہمی تعلقات کو اُتھل پتھل کر رہی ہیں۔ ایسے میں کسی جنگ میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر، اپنے دامن کو آگ کے بھڑکتے شعلوں سے بچاتے ہوئے، دانشمندانہ اور حکیمانہ راستہ تراشنا تقاضائے وقت ٹھہرا ہے۔ اگر ہم تنی رسّی پر ہولے ہولے قدم دھرتے، کڑی آزمائش کا یہ کڑا وقت، گزارنے میں کامیاب ہوگئے تو داخلی استحکام، معیشت کی استواری اور ترقی وخوش حالی کے ارفع اہداف کا سفر بھی آسان ہو جائیگا اور اگر خدانخواستہ ذرا سا بھی توازن بگڑا تو سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔