ثاقب نثار کے ہاتھوں قومی خزانے میں لوٹ مار کی کہانی

اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کی خاطر کوئلوں کی دلالی کرنے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پہلی مرتبہ بے نقاب نہیں ہوئے بلکہ ان کا ماضی ایسی حرکات سے بھرا پڑا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے نہ صرف اپنے دور اقتدار میں پر تعیش مراعات کے مزے لوٹے بلکہ بطور چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ گھر جانے کے بعد بھی یہ سب مزے لوٹتے رہیں۔ چنانچہ انہوں نے ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے اپنے لئے عمران خان کی حکومت سے خصوصی مراعات کا ایک بڑا پیکیج منظور کروایا جس کا فائدہ اب وہ بطور ریٹائرڈ چیف جسٹس اٹھا رہے ہیں۔ پاکستانی عدالتی تاریخ میں اس سے پہلے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی چیف جج کو اتنے بڑے پیمانے پر سرکاری مراعات ملنے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

سرکاری دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل تب کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی فل کورٹ سے اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ہوشربا اضافی سہولتوں اور مراعات کی منظوری حاصل کی تھی جنکی بعد میں وفاقی حکومت نے بھی منظوری دیدی حالانکہ وزارت قانون اور خزانہ نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔ خصوصی مراعات کے اس پیکیج کے تحت چیف جسٹس ثاقب نثار ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تنخواہ کا 85 فیصد حصہ ہر مہینے بطور پنشن وصول کر رہے ہیں جو کہ 10 لاکھ روپے بنتا ہے۔ اس خصوصی پیکیج کے تحت ثاقب نثار نہ صرف ریٹائرمنٹ کے بعد 10 لاکھ روپے ماہانہ پنشن حاصل کر رہے ہیں بلکہ انہیں فری بجلی، ٹیلی فون، گیس اور پانی کی سہولیات بھی حاصل ہیں جن کا بل حکومت پاکستان ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پر ایک پرائیویٹ سیکرٹری، ایک اردلی، ایک ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈز بھی مہیا کیے گئے ہیں۔ اس کیس کی سرکاری فائل کے مطابق جو کہ تب کے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ نے تیار کی تھی، وزارت قانون اور وزارت خزانہ نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ماضی میں کسی بھی چیف جسٹس کو اتنے بڑے پیمانے پر ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری مراعات دینے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ سمری اگست 2018ء میں وزارت قانون نے منظوری کے لیے وزیراعظم آفس کو بھیجی، جس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 7 جولائی، 2018 کو ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیا گیا تھا۔ سمری میں کہا گیا کہ فل کورٹ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ سمری میں یہ بھی  کہا گیا کہ دیگر مراعات  کے علاوہ ریٹائرڈ چیف جسٹس کو ایک پرائیویٹ سیکرٹری کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی جس کی تنخواہ سپریم کورٹ کے بجٹ سے ادا کی جائے گی۔ لیکن وزارت قانون نے اس تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے کہ کسی ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری یا 22 گریڈ کے افسر کو 16 گریڈ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات سرکاری اخراجات پر فراہم کی جائے۔ لیکن پھر وزیر قانون کو اوپر سے احکامات ملے تو یہ سمری وزارت خزانہ کو بھجوا دی گئی۔ لیکن وزارت خزانہ کی ریگولیشن ونگ نے بھی سپریم کورٹ کی تجویز پر اعتراضات لگا دیے۔ ریگولیشن ونگ نے کہا کہ سپورٹ اسٹاف بطور ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹری یا پرائیویٹ سیکرٹری فراہم کرنے کی سہولت صرف حاضر سروس سینئر ترین افسران کے لیے ممکن ہے لیکن ریٹائرڈ افسران کے لیے ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ وزارت خزانہ کی فائل میں لکھا گیا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں بشمول چیف جسٹس پاکستان کو پنشن کی مد میں ہینڈسم رقم اور متعدد سہولیات فراہم کررہی ہے، جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ نجی مقاصد کے لیے سپورٹ اسٹاف کی سہولت حاصل کرے کیوں کہ ان کا مقصد حکام کے دفتری امور انجاد دینا ہوتا ہے جو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔

وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ اگر اس تجویز کی منظوری دی جاتی ہے تو اسطرح کے مطالبات دیگر آئینی اداروں بشمول وفاقی شرعی عدالت، ہائی کورٹس، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین نیب اور پہلے سے ریٹائرڈ اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان وغیرہ کی جانب سے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت ان مطالبات کو رد نہیں کرسکے گی۔ وزارت خزانہ نے اپنی رائے میں لکھا کہ درج بالا وجوہات کے سبب یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ فنانس ڈویژن اس تجویز کی حمایت نہ کرے اور اسے رد کر دے۔

اس کے بعد جب یہ فائل فنانس سیکرٹری کو بھجوائی گئی تو انہوں نے اس پر بات کرنے کا کہہ کر اسے واپس ایڈیشنل فنانس سیکریٹری ریگولیشن کو بھجوا دیا۔ اور جب ان کی بات ہوگئی تو وزارت خزانہ نے حیران کن طور پر اپنا موقف تبدیل کر لیا اور ایڈیشنل فنانس سیکریٹری ریگولیشن، جنہوں نے پہلے سپریم کورٹ کی تجویز منظور نہ کرنے کی تائید کی تھی اور اعتراضات اٹھائے تھے، نے بھی اس تجویز کی حمایت کر دی۔ انہوں نے فائل پر لکھا کہ میری فنانس سیکرٹری سے بات ہوئی ہے اور انکا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے اور چونکہ آئینی عہدے رکھنے والے صدر پاکستان اور صوبائی گورنرز کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ سیکرٹریز فراہم کیے جاتے ہیں تو ہمیں چیف جسٹس کے لیے بھی ایسا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بعد ازاں سیکرٹری فنانس نے 18 ستمبر، 2018 کو اس سمری کو منظور کرلیا اور اگلے ہی روز وزارت خزانہ نے وزیراعظم آفس کو اس سمری پر کوئی اعتراض نہ ہونے سے آگاہ کردیا۔

یوں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے راستہ ہموار کرنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے 1997 کے صدارتی آرڈر نمبر 2 میں سال 2018 میں ایک ترمیم کر دی جو کہ اعلیٰ عدالتوں کی پنشنز اور مراعات سے متعلق تھا، تاکہ جسٹس ثاقب نثار کو ان کی ریٹائرمنٹ پر درج ذیل سہولیات فراہم کی جا سکیں۔:

۱) بطور چیف جسٹس اپنی تنخواہ کا 85 فیصد حصہ بطور ماہانہ پنشن وصولی کی سہولت۔

۲) کم قیمت پر سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت

۳) تین ہزار مفت لوکل کالز ماہانہ کے ٹیلی فون بل کی ادائیگی کی سہولت

۴) دو ہزار یونٹس ماہانہ مفت بجلی فراہمی کی سہولت

۵) پچیس ہیکٹو میٹرز یونٹس ماہانہ مفت گیس فراہمی کی سہولت

۶) پانی کی مفت فراہمی کی سہولت

۷) ماہانہ تین سو لٹر پٹرول فراہمی کی سہولت

۸) ایک ڈرائیور اور ایک اردلی یا پھر جج صاحب چاہیں تو ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ اور انہیں ملنے والے وہ تمام الائونسز اور سہولتوں کو ملا کر اسپیشل اضافی پنشن وصول کر سکتے ہیں۔

۹) چوبیس گھنٹے کیلئے ریٹائرڈ جج کی رہائش گاہ پر سیکورٹی گارڈز کی فراہمی کی سہولت۔

یاد رہے کہ ثاقب نثار شاید ملک کی عدالتی تاریخ کے واحد جج ہوں گے جنہیں ان کے عدالتی فیصلوں سے زیادہ ’غیر عدالتی‘ سرگرمیوں، خفیہ ایجنسیوں کا ایجنڈا لے کر چلنے اور اپنے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

ادویات کی 40 کمپنیوں کے بند ہونے کا خدشہ کیوں؟

Back to top button