نواز شریف کو سزا دینے اور دلوانے والے متنازعہ کیوں ہو گئے؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ آج نواز شریف کو سزا دینے اور دلوانے والے کردار ملکی تاریخ کے متنازع ترین لوگوں میں شمار ہو رہے ہیں، اور سزا کا فیصلہ بھی تاریخ کے بدبو دار گٹر میں پڑا سڑ رہا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جن بنیادوں پر نواز شریف کو سزا دی گئی کیا وہ انصاف تھا، انتقام تھا، یا ہوس اقتدار تھی؟ اس سارے واقعے کی قلعی کھل جانے کے بعد بھی پاکستانی میڈیا پر نواز شریف کی تقریر اور تصویر پر پابندی قائم ہے، تین دفعہ کا منتخب وزیر اعظم جس کو کروڑوں لوگوں نے ووٹ دیا، وہ کبھی یو ٹیوب پر خطاب کرتا ہے، کبھی ٹویٹر اور فیس بک کا پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے، کیونکہ پاکستان کا غلام الیکٹرانک میڈیا، پابندی اور جرمانے کے خوف اور نادیدہ کالز کے ڈر سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نواز شریف کی تقریر دکھانے کا رسک نہیں لے سکتا۔
اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ تین دفعہ کے وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پیمرا کے ذریعے پابندی عائد ہی۔ پابندی کا فیصلہ جاری کرتے وقت پیمرا نے واضح کیا کہ کسی بھی ٹی وی چینل پر نواز شریف کی تقریر دکھانے کے جرم میں اسے جرمانے کے علاوہ بندش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہا گیا کہ ایک مفرور اور اشتہاری مجرم کی تقریر دکھائی جا سکتی ہے نہ تصویر۔ تاہم عمار مسعود کے مطابق یہ سب جانتے ہیں کہ جن مقدمات میں نواز شریف کو ملزم ٹھہرایا گیا، اس جھوٹ کی قلعی ہر روز کھلتی جا رہی ہے، جب نواز شریف کے خلاف کرپشن کی ایک پائی بھی ثابت نہیں ہوئی تو ایک اقامے کی بنیاد پر انہیں تیسری دفعہ وزارت عظمی سے فارغ کر دیا گیا اور بعد میں انکا موقف میڈیا پر دینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ ایسا نہیں یے کہ میڈیا میں اخلاقیات اچانک عود کر آ گئے ہیں، پاکستانی میڈیا پر کیا کچھ نہیں چل رہا، اس میڈیا پر اپوزیشن کے سیاست دانوں کی کردار کشی کی مکمل اجازت ہے، ان کے اہل خانہ کی توہین کے لیے زرخرید اینکر ہمہ وقت تیار ہیں، ان پر کرپشن اور چوری کے بے بنیاد الزامات لگانے کو بے ضمیر تجزیہ کار ہر گھڑی تیار کامران ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس الیکٹرانک میڈیا پر فوج کی حراست سے فرار ہو جانے والے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قاتل احسان اللہ احسان کا انٹرویو چلا، مفرور ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے خطابات عالیہ سنوائے گئے، اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کی ٹرانسمیشن ہمارے چینلز پر لمحہ بہ لمحہ لائیو دکھائی گئی، ٹاک شوز میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کاروں کی سیاست دانوں پر با تکی تنقید سنوائی گئی، مگر نواز شریف کو اشتہاری قرار دے کر میڈیا پر ان کی آزادی اظہار کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ تین دفعہ کے وزیر اعظم کی توہین ہے، کروڑوں لوگوں کے ووٹ کی توہین ہے، آزادی اظہار کی توہین ہے، بنیادی انسانی حقوق کی توہین ہے۔
اس فیصلے کے پیچھے خوف ہے ؛نواز شریف کا خوف، ووٹ کو عزت دینے کا خوف، پارلیمان کی بالادستی کا خوف، سول سپرمیسی کا خوف۔ عمار کے مطابق تصویر اور تقریر یاد دہانی ہوتی ہے، فیصلہ کن لوگ جانتے ہیں کہ جب بھی نواز شریف کی تصویر لوگوں کو نظر آئے گی تو عوام کو نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر یاد آئے گا، والہانہ استقبال کرتے عوام کے مناظر یاد آئیں گے، ”مجھے کیوں نکالا“ کا شکوہ یاد آئے گا، ”ووٹ کو عزت دو“ کا نغمہ یاد آئے گا، وہ جج یاد آئیں گے جنھوں نے تاریخ کا یہ متنازع ترین فیصلہ دیا تھا، عوام کو نواز شریف کی تصویر نظر آنے سے سوشل میڈیا پران کا موجودہ حشر یاد آئے گا، لوگوں کو جیل میں گزرے نواز شریف کے دن یاد آئیں گے، انہیں وہ وزیر اعظم یاد آئے گا جس کے دور میں عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں کم تھیں اور معیشت ترقی کر رہی تھی، لوگوں کو گوجرانوالہ کی تقریر یاد آئے گی، اس تقریر کے ایک ایک مقام پر جاں نثاروں کا ولولہ یاد آئے گا؛ چنانچہ ان سب یادوں سے بچنے کے لیے آئین کے مجرموں نے نواز شریف کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پابندی برقرار رکھی ہے۔ لیکن اس پابندی کے باوجود نواز شریف کے یوٹیوب پر خطاب کے چھوٹے بڑے کلپس لاکھوں کی تعداد میں شیئر ہو رہے ہیں۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ ایسی پابندیاں عائد کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اگر میڈیا پر پابندی لگانے سے لیڈر لوگوں کے دلوں سے نکل پاتے تو آج بھٹو بھی نہ زندہ ہوتا، آج بے نظیر کی یاد بھی دلوں میں نہ دھڑکتی، آج نواز شریف کے متوالوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو رہا ہوتا۔ آئین شکنوں کو کبھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوا کہ میڈیا اہم ہوتا ہے مگر میڈیا سب کچھ نہیں ہوتا؛ ضیا الحق کے دور تاریک میں پیپلز پارٹی پر بھی ایسی ہی پابندی تھی، بھٹو کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا، ایک دہائی سے زیادہ یہ تماشا کیا گیا، 1986 میں بے نظیر واپس آئیں تو بیس لاکھ لوگ لاہور میں ان کے استقبال کے لیے موجود تھے، چنانچہ میڈیا پر پابندی کے پرخچے اڑ گئے تھے، وہ بھٹو آج بھی سندھ کے لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے اور اس ڈکٹیٹر ضیا کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔ آج نواز شریف کی تقریر اور تصویر دکھانے پر پابندی ہے، لیکن عمار کہتے ہیں کہ آنے والے کل میں یہی میڈیا نواز شریف کے حق میں ترانے چلا کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت پیش کرے گا، یہی میڈیا نواز شریف کے حق میں ٹرانس میشنز کرے گا کیوں کہ اس طرح کی پابندیوں سے قومیں اپنے لیڈروں کو بھولا نہیں کرتیں۔ یہ ذکر ان پارٹیوں اور لیڈروں کا ہے جن کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں۔ اس ملک میں ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن کی سیاست صرف میڈیا کے زور پر ہوتی ہے، وہ اپنی بقا کے لیے صرف میڈیا کے مرہون منت ہوتے ہیں ؛ شیخ رشید کی نام نہاد عوامی پارٹی میڈیا کے زور پر زندہ ہے، ق لیگ میڈیا کے زور پر پنجاب میں حکومت کرتی رہی، تحریک انصاف کو دھرنے سے لے کر حکومت تک میڈیا ہی کا سہارا رہا ہے۔ ان لوگوں کو میڈیا ایک ہفتہ نہ دکھائے تو لوگ ان کو فراموش کر دیں، اس لیے کہ ان کی جڑیں عوام میں نہیں، ان کی ساری سرمایہ کاری، جدوجہد اور سوچ میڈیا تک محدود ہے، جس دن میڈیا ان پر سے ہاتھ اٹھاتا ہے یہ خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ دوسری جانب نواز شریف پر میڈیا میں جتنی بھی پابندیاں عائد ہو جائیں لوگ ان کو فراموش نہیں کریں گے، اس لیے کہ نواز شریف اب جس دلیرانہ مشن پر ہیں اگر وہ اس میں سرخرو ہو گئے تو یہ قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا کارنامہ ہو گا، جس شخص کا آج نام بھی میڈیا پر لینا منع ہے لوگ بہادری کے اعتراف میں اپنے بچوں کے نام اس کے نام پر رکھیں گے۔

Back to top button