چیف جسٹس بندیال کی شخصی آمریت چیلنج کرنے کا مطالبہ

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی جانب سے فل کورٹ بنانے سے انکار کرتے ہوئے چند مخصوص ججوں کے ساتھ مل کر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دینے کے بعد اب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پاکستان کی تمام بڑی بارز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کے سوو موٹو نوٹس لینے، کیسز فکس کرنے اور مرضی کے بینچ بنانے کے اختیارات کو آئینی ترمیم کے ذریعہ محدود کیا جائے تاکہ عدلیہ میں شخصی آمریت کا خاتمہ ہو سکے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ججوں کی تقرری بارے آئینی شقوں میں ترمیم کی جائے اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کرنے کا اختیار صرف چیف جسٹس سے واپس لے کر پانچ سینئر ترین ججوں کی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے تاکہ مرضی کے جونیئر ججوں کو تعینات کرنے کی روش ختم ہوسکے۔
یہ مطالبہ 28 جولائی کو ہونے والے جوڈیشل کونسل آف پاکستان کے اجلاس سے ایک روز پہلے کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال مسلسل اپنی مرضی کے جونیئر ججوں کو اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر اعلیٰ عدلیہ میں گھسانے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ اگلے برس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے پہلے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو ریموٹ کنٹرولڈ ججوں سے بھر دیا جائے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی یہی مطالبہ کر چکے ہیں۔ تاہم جسٹس عمر عطا بندیال کی تازہ واردات کے بعد اس مطالبے میں شدت آگئی ہے۔
اسی دوران وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کی اس تجویز کی تائید کی ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت توازن لایا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے تجویز دی تھی کہ اگر موجودہ پارلیمنٹ کے ممبران کو واقعی اختیارات کے توازن کو بحال کرنے کی فکر ہے تو آئین کے آرٹیکل 191 کو غور سے پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا کرنا ہے، ورنہ بلاوجہ شور مچانا بند کر دیں۔
عمران لانگ مارچ کے بعد دھرنا دئیے بغیر کیوں بھاگا؟
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایک نیا سیاسی فلسفہ تیار ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئین سپریم ہے اور آئین بھی وہ نہیں ہے جو کہ لکھا جا چکا ہے، بلکہ اب تو آئین وہ ہے جو کہ سپریم کورٹ کہتی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اختیارات منتخب سے غیر منتخب افراد کے پاس جا رہے ہیں، لہٰذا رکان پارلیمنٹ جاگ جائیں۔ انکا کہنا تھا کہ فیصلے ذاتی خواہشات کی بجائے آئین اور قانون کے مطابق ہی ہوں تو بہتر ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ ضمیر ہر شخص میں ہوتا ہے لیکن اسکا زندہ ہونا بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ وہ تمام فیصلے ضمیر کے مطابق کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ججوں کی تقرری یا ترقی کے موجودہ نظام سے عدلیہ میں شخصی امریت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس روش کو مضبوط نہیں ہونے دینا چاہیئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تازہ خط بھی اسی کے خلاف احتجاج ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ نے غلطی تب کی جب 18ویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر اصرار نہیں کیا اور پیچھے ہٹتے ہوئے 19ویں ترمیم کو اپنا لیا جس سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس سیاہ و سفید کا مالک بن گیا اور شخصی آمریت قائم ہو گئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ججوں کے تقرر کے لیے آئین کے آرٹیکل 175۔ اے میں درج طریقۂ کار پر نظر ثانی کی جائے اور چیف جسٹس سے ججوں کی تقرری کا اختیار لے کر سینئر ترین ججوں کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا سوو موٹو نوٹس لینے، کیسز فکس کرنے اور مرضی کے بینچ بنانے کا اختیار محدود کیا جائے۔
یاد رہے کہ اس وقت 19 ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175۔ اے میں سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقۂ کار دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ میں جج تعینات کرنے کے اختیارات سپریم کورٹ ہی کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہو گا، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس مقصد کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سے قائم کی گئی ہے جس میں چار اراکین سینیٹ اور چار ہی قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے چار کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دیتی ہے اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالتی کمیشن کا ہی فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کرتی ہے تو تین چوتھائی ممبران کی حمایت کے ساتھ اس نام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو بھی بیان کر کے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کی جاتی ہیں جس پر جوڈیشل کمیشن اس نام کے بجائے کوئی اور نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ ججز کے وہ نام جو پارلیمانی کمیٹی منظور کر لیتی ہے انہیں وزیر اعظم کو ارسال کیا جاتا ہے جو ان کی تعیناتی کے لیے صدر مملکت کو ایڈوائس بھیجنے کے پابند ہیں۔
تاہم اب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں عدلیہ، بار کونسل، پارلیمان اور انتظامیہ کے نمائندوں کی تعداد برابر ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی اکثریت کی وجہ سے دوسرے کی رائے کو دبا نہ سکے اور ایک اتفاق رائے کے ساتھ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریاں کی جائیں احسن بھون کے مطابق ملک میں عدالتی نظام تباہ ہو چکا ہے اور چیف جسٹس کی آمریت قائم ہو چکی ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔