جناح ہاؤس حملے کے کونسے کردار اب تک آزاد ہیں؟

سانحہ 9 مئی کے بعد جہاں ایک طرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں تاہم دوسری طرف شرپسندی کے واقعات کے مبینہ ماسٹر مائنڈز اور سہولتکار تاحال پولیس کی گرفت سے باہر ہیں۔ سیکیورٹی ادارے انھیں پابند سلاسل کرنے میں تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔
خیال رہے کہ جلاو گھیراؤ کے پر تشدد واقعات کے بعد ملوث لوگوں کو جیو فنسنگ کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم جب اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کی گئی تو ایف آئی آر میں ہی کچھ ملزمان کا مرکزی کردار رکھا گیا۔ جیسا کہ ان ہنگاموں میں ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی تھی جس کے قتل کا الزام ایف آئی آر میں تحریک انصاف کے رہنما میاں اسلم پر عائد کیا گیا۔جن افراد پر مرکزی ملزمان کا شائبہ ظاہر کرتے ہوئے ان کے نام ایف آئی آر میں درج کیے گئے ہیں وہ ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے۔
جناح ہاؤس حملے کے جو ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ان میں میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، تحریک انصاف لاہور کے صدر امتیاز شیخ اور عمران خان کے بھانجے حسان نیازی شامل ہیں۔ یہ وہ نامزد افراد ہیں جو ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکے۔ اس کے لیے سینکڑوں افراد بھی ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چار افراد میں سے حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال تو باقاعدگی سے ٹویٹ بھی کر رہے ہیں۔ البتہ امتیاز شیخ اور حسان نیازی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔
تاہم دوسری طرف نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کل 3600 ایسے افراد کی تلاش تھی جو اس جلاؤ گھیراؤ میں ملوث تھے جب کہ پولیس نے اب تک 1200 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی ابھی تک تمام افراد کو گرفتار کیوں نہیں کر سکے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک پولیس افسر جو کہ ان تحقیقات کا حصہ ہیں، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’تفتیشی ٹیمیں دن رات کام کر رہی ہیں۔ ڈیٹا اتنا زیادہ اور کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں ابھی مزید وقت لگ سکتا ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ ان سے منسوب شواہد بھی ساتھ ہی تیار کیے جائیں۔ جو لوگ مفرور ہیں وہ زیادہ دیر بھاگ نہیں سکتے ہیں۔ جیسے ہی شناخت کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ تو اس کے بعد ساری توجہ گرفتاریوں پر ہی ہوگی۔
دوسری طرف سی سی پی او لاہور کے دفتر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’چاروں مرکزی کرداروں سمیت مزید دیگر ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک سونپ دیا ہے جس میں آپریشنز، انویسٹی گیشن ونگز اور سی آئی اے کی ٹیمیں شامل ہیں۔ پولیس کے متعدد چھاپوں سے قبل ملزمان فرار ہوتے رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے متعدد بار ملزمان کے ٹھکانوں کی اطلاع بھی ملی۔ بہت جلد یہ لوگ پولیس کی حراست میں ہوں گے۔
خیال رہے کہ معروف فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ بھی کم از کم 10 روز تک پولیس کی گرفت میں نہیں آئی تھیں اور پولیس کی متعدد کوششیں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے خود گرفتاری دی تھی۔دوسری طرف پنجاب بھر میں نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں کئی خواتین کو بھی گرفتار کیا ہے۔تحریک انصاف ان گرفتاریوں پر تنقید کر رہی ہے۔ پولیس نے خواتین کی گرفتاریوں اور رہائی کے اعداوشمار پر مبنی رپورٹ نگران وزیر اعلی پنجاب کے حوالے کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب کے آٹھ مختلف شہروں سے 66 خواتین کو گرفتار کیا گیا۔ لاہور سے 37 فیصل آباد سے آٹھ راولپنڈی سے 12 خواتین گرفتار ہوئیں۔ اسی طرح گجرات، چکوال سے ایک، پاکپتن سے دو خواتین کو گرفتار کیا گیا جبکہ ملتان سے چار خواتین کو پولیس نے گرفتار کیا۔رپورٹ کے مطابق ان گرفتار خواتین میں سے 38 خواتین ضمانت پر رہا ہوچکی ہیں۔
خیال رہے کہ پولیس کی جانب سے شرپسند عمرانڈوز کی گرفتاریوں کے بعد سے ہی تحریک انصاف جیلوں میں گرفتار مرد ملزمان پر تشدد اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے الزامات عائد کر رہی ہے تاہم جیلوں میں مرد و خواتین ورکرز سے بدسلوکی اور تشدد کے الزامات پر انسانی حقوق کمیشن کی تحقیقات میں ایک بھی الزام کی تصدیق نہیں ہوسکی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی کے بعد پارٹی ورکرز کی گرفتاری کے بعد یہ الزام عائد کیا تھا کہ خبریں آرہی ہیں کہ خواتین سے جیلوں میں زیادتی ہوئی ہے، عدلیہ سوموٹو ایکشن لے اور خواتین کو رہا کرائے۔عمران خان کے الزامات کے بعد نگران پنجاب حکومت کی جانب سے جیل میں خواتین پر تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی 2 رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے تشددکے الزامات مسترد کر دیئے۔
اس کے علاوہ 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے مقدمات میں گرفتار خواتین نے بھی جیل میں زیادتی کی خبروں کی تردیدکرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پیشی کے موقع پر خواتین نے تصدیق کی کہ ان سے کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔دوسری جانب قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی تحریک انصاف کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے رپورٹ وزیراعظم کو بھجوادی ہے۔ جس میں چیئرپرسن کمیشن رابعہ جویری آغانے کہا ہے کہ جیلوں میں قید سیاسی کارکنوں پر تشدد اور غیر انسانی سلوک کے الزامات پرمبنی رپورٹس سامنے آئی تھیں، الزامات کی سچائی جاننے کے لیے انسانی حقوق کمیشن نے تحقیقات کیں، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ٹیمیں مقررکیں۔
چیئرپرسن انسانی حقوق کمیشن نے خط میں کہا کہ انسانی حقوق کمیشن کی ٹیموں نے الزامات میں سچائی نہیں پائی، ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر الزامات درست مانے جائیں، کسی سیاسی کارکن کےساتھ وہ نہیں ہوا جس کا الزام لگایا گیا تھا۔خط میں بتایا گیا ہےکہ سینٹرل جیل راولپنڈی، پشاور، سوات، نوشہرہ اورخواتین جیل کراچی کے دورے کیے گئے جب کہ
پاکستان میں ثقافتی ورثے کا تحفظ کتنا ضروری ہے؟
سینٹرل جیل لاہور کا دورہ اس وقت جاری ہے۔