کیا امریکہ کو ایران پر حملے سے روکنے میں جنرل عاصم کا کردار ہے؟

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد امریکہ نے ایران پر حملے کا فیصلہ دو ہفتوں کیلئے مؤخر کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران سے جوہری مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے یورپی مؤقف اور ٹرمپ کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات نے امریکی پالیسی سازوں کو گہرے غور و فکر پر مجبور کر دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ کا ایران پر حملہ مؤخر کرنے کا فیصلہ یورپی دباؤ اور پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کا نتیجہ ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر اور فیلڈ مارشل کے مابین وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا تھا۔ دوران ملاقات جہاں آرمی چیف نے اس مسئلے کے پرامن حل پر زور دیا تھا وہیں کشیدگی بڑھنے سے سامنے آنے والے خطرات بارے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا۔ جس کے بعد اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت اور ایران پر حملے کے فیصلے کو مؤخر کر دیا ہے۔ دوسری جانب عالمی مبصرین کے مطابق یورپی ممالک بھی ایران اسرائیل جنگ بارے امریکہ کے جارحانہ مؤقف کے خلاف ہیں۔ یورپی ممالک، خصوصاً جنرمنی، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے اسرائیل ایران کشیدگی کو سفارتی طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے جس کی وجہ سے اس دباؤ نے واشنگٹن میں پالیسی سازوں کو ایران کے خلاف ممکنہ جارحانہ اقدامات کو مؤخر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے امریکہ کو واضح کیا گیا ہے کہ اگر ایران میں حکومت ختم ہوئی تو پاکستان اور ایران کی سرحد پر موجود علیحدگی پسند اور دہشتگرد گروہ اس خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ ایران اور پاکستان کی 560 میل طویل سرحد کے دونوں جانب ایران اور پاکستان مخالف گروہ سرگرم ہیں جو ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنی الگ ریاست قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں مبصرین کے مطابق سرحدی شدت پسند گروہوں میں سے کچھ نے ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدہ صورتحال کا خیرمقدم کیا ہے ۔ بلوچ اور سنی اقلیتوں پر مشتمل جیش العدل نامی ایرانی جہادی گروہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایران کے ساتھ اسرائیل کا تنازع ایک سنہری موقع ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔اس لئے پاکستان ہر صورت ایران اسرائیل جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کا خواہاں ہے۔
مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ سفارتی دروازے کھلے رکھنے کا فیصلہ ممکنہ طور پر یورپی دباؤ اور پاکستانی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات کا نتیجہ ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی یعنی رجیم چینج کے سخت مخالف ہیں اور مسئلے کا حل صرف اور صرف سفارتی کوششوں میں دیکھتے ہیں۔مبصرین کے مطابق اگر امریکا اسرائیل کی جانب سے ایران پر بمباری کی مہم میں شامل ہوتا ہے تو اسے یورپی ممالک کی حمایت کی ضرورت پڑے گی، یورپی قیادت شاید اتنا دباؤ نہ ڈال سکے کہ وہ واشنگٹن کا مؤقف مکمل بدل دے، لیکن یورپی ممالک کے مذاکرات کے ذریے مسائل حل کرنے کے مؤقف نے امریکی پالیسی سازوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ غور کریں کہ وہ درحقیقت کیا کرنے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اگر اب بھی ٹرمپ ایران اسرائیل جنگ میں شمولیت یا ایران میں رجیم چینج کا حصہ بنتے ہین ہیں تو یہ بوجھ انہیں خود اٹھانا پڑے گا یورپی ممالک اس کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ یورپی ممالک پہلے ہی یہ مؤقف اختیار کر چکے ہیں کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں شامل نہیں ہونا چاہتے، نہ ہی وہ ایران کے ایٹمی ری ایکٹرز پر بمباری کا حصہ بنیں گے۔ یورپی ممالک کا اس حوالے سے مؤقف بالکل واضح ہے کہ وہ صرف ایک سفارتی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلے کا حل نکلے۔ ایران اسرائیل کشیدگی کا سفارتی حل نکالنے کیلئے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے رواں ہفتے جنیوا میں ایرانی ہم منصب کے ساتھ جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یورپی وزرائے خارجہ پہلے یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس سے جرمنی کے مستقل مشن پر ملاقات کریں گے جس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔جرمن سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد ایران سے سخت یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ وہ جوہری توانائی کا استعمال صرف پرامن سول مقاصد کے لیے کرے گا۔ مذاکرات کے بعد ماہرین کی سطح پر "اسٹرکچرڈ ڈائیلاگ” بھی ترتیب دیا گیا ہے۔یورپی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایران تعاون پر آمادہ ہو گیا تو خطے میں کشیدگی کم کرنے کا موقع پیدا ہو سکتا ہے ورنہ حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔