ٹرمپ اور عاصم منیر کی ملاقات میں پس پردہ کن لوگوں کا ہاتھ تھا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کی وائٹ ہاوس میں تاریخی ملاقات کروانے کے لیے پس پردہ کئی لوگوں نے اہم ترین کردار ادا کیا لیکن اسکی ٹائمنگ اس لیے بہترین رہی کہ دونوں کہ مابین ایران کا مسئلہ بھی زیر بحث آ گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل اور ایران کی جنگ رکوانے کے لیے پاکستان اب امریکہ کی مدد سے اہم ترین کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات نے انڈیا میں تو کھلبلی مچائی ہی ہے لیکن اسے دنیا بھر میں تہلکہ خیز قرار دیا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی یہ ملاقات ایک گھنٹے کی طے تھی مگر دو گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ اسے ایک غیر معمولی اور تاریخی واقعہ سمجھا جا رہا ہے۔ عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں جنہوں نے کسی امریکی صدر سے ون ٹو ون ملاقات کی ہے۔ ماضی میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آرمی چیفس بھی امریکی صدور سے ملتے رہے، لیکن زور زبردستی سے پاکستان کے صدر بننے کے بعد۔
صدر ٹرمپ اور جنرل عاصم منیر کی ملاقات ارینج کروانے کیلئے کئی افراد نے پسِ پردہ اہم کردار ادا کیا تا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ ملاقات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر اور پاکستان کی اندرونی سیاست کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق، تین ہفتے قبل پاکستان سے میجر جنرل رینک کے ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر واشنگٹن پہنچے اور ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں سے صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ملاقات کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن اصل پیشرفت تب ہوئی جب صدر ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور مشرقِ وسطیٰ کیلئے ان کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے ذاتی حیثیت میں دونوں کو ملوانے کی کوششیں کیں۔ ویٹکوف صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کے دوران بھی موجود تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ سینیٹر مارکو روبیو اور پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر جنرل عاصم ملک بھی شریک تھے۔ اس ملاقات کا انتظام مشرق وسطیٰ میں مقیم ایک پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت نے کیا، جس کے ویٹکوف اور خلیجی شاہی خاندانوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ متعدد فون کالز اور پریزنٹیشنز کے بعد بالآخر ملاقات کا وقت طے پایا۔ میجر جنرل رینک کے پاکستانی انٹیلی جنس افسر نے کئی مرتبہ واشنگٹن جا کر امریکی حکام اور ٹرمپ کے قریبی سمجھے جانے والے پاکستانی نژاد افراد سے ملاقاتیں کیں۔ ان میٹنگز کا مقصد صرف فیلڈ مارشل کے دورے کے حوالے سے بات چیت نہیں تھا بلکہ عمران خان کے حامیوں کی جانب سے امریکی سینیٹرز کی مدد سے چلائی جانے والی مہم کا توڑ بھی تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکا سے قبل متحدہ عرب امارات میں موجود تھے، جہاں سے وہ سینٹ کام کی دعوت پر امریکا روانہ ہوئے۔ ان کے طے شدہ شیڈول کے مطابق انہیں سینٹ کام اور پینٹاگون کے حکام سے ملاقاتیں کرنا تھیں لیکن ان کا پروگرام ان کی واشنگٹن آمد سے چند گھنٹے قبل اچانک تبدیل کر کے صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی شیڈول میں شامل کر دی گئی۔ یہ سب کچھ پسِ پردہ سفارت کاری کا شاندار مظاہرہ تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں یہ قربت اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ چند ماہ قبل جب ٹرمپ بھاری اکثریت سے دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو یہ خدشات تھے کہ وہ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے، چنانچہ پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی امریکہ پہنچے اور انہوں نے سب سے پہلے پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ فیملی کے ایک کاروباری شراکت دار نے دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے ٹرمپ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ اسلام آباد آئے اور وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ممکن ہے ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینل کو عمران خان کی رہائی سے متعلق مہم میں گمراہ کیا گیا ہو، جو امریکا میں سرگرم ایک لابی کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے نمائندوں اور حکام کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، جن میں کرپٹو کرنسی، نایاب معدنیات، اور تجارتی تعاون پر بات چیت ہوئی۔
پاکستان اور امریکا کے بڑھتے تعلقات کی اگلی بڑی تصویر اس وقت سامنے آئی جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور صدر ٹرمپ نے غیر جانبدار رہتے ہوئے دونوں ممالک سے پیچھے ہٹنے کی اپیل کی، جس پر پاکستانی عوام نے انہیں سراہا جبکہ بھارتی حکومت اور مودی کے حامیوں نے تنقید کی۔ ذرائع کے مطابق، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ٹرمپ کی ٹیموں نے معدنیات، کرپٹو کرنسی، تیل و گیس کی تلاش، مائننگ، ڈیٹا سینٹرز، بٹ کوائن مائننگ، رئیل اسٹیٹ اور پاکستان کی برآمدات کے فروغ جیسے اہم امور پر اسٹریٹیجک اتحاد کی بات کی اور اب ان شعبوں میں تعاون آگے بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ اگلے چند دنوں میں پاکستان مشرق وسطی میں اسرائیل اور ایران کی جنگ کے حوالے سے بھی امریکہ کیساتھ مل کر مثبت کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔