ڈنگ ٹپاؤ
تحریر : جاوید چوہدری
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس
بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی خادم نے بالائی کے پیالے میں قے کر دی‘ تیمور دلی کے محاصرے کے دوران شدید زخمی ہو گیا تھا‘ شاہی طبیب نے دودھ کی بالائی تجویز کی‘ امیر کے لیے بالائی پیالے میں ڈال کر خادم کے حوالے کر دی گئی‘ خادم پیالہ لے کر امیر کے سامنے پیش ہواتو اسے اچانک قے آ گئی اور بالائی برباد ہو گئی‘ تیمور سخت گیر تھا‘ وہ معمولی باتوں پر گستاخوں کے سر اتار دیتا تھا‘ یہ منظر دیکھ کر اسے کوفت ہوئی لیکن وہ خادم کی گستاخی برداشت کر گیا‘ شام تک محل کے تمام خادموں کو قے اور اسہال کی بیماری لگ چکی تھی‘ فوج قلعے سے باہر تھی‘ اس کی حالت بھی پتلی تھی‘ آدھی فوج اسہال اور قے میں مبتلا ہو چکی تھی‘ تیمور نے دلی کے طبیبوں کو بلا کر پوچھا تو اسے بتایا گیا دلی میں ساون بھادوں( مون سون)میں اسہال اور قے (ڈائریا) کی وبا پھوٹ پڑتی ہے‘ غیر مقامی لوگ اس کے زیادہ شکار ہوتے ہیںکیوں کہ مقامی نسلوں سے یہاں آباد ہیں۔
ان کا جسم عادی ہو چکا ہے‘ یہ موسم کی سختی برداشت کر جاتے ہیں جب کہ غیرمقامی لوگ یہ جھٹکا نہیں سہہ پاتے اور قے اور اسہال کر کر کے فوت ہو جاتے ہیں‘ہم مقامی لوگ اس بیماری کو ہیضہ کہتے ہیں‘ تیمور نے جڑی بوٹیوں کے ذریعے فوجیوں کے علاج کی کوشش کی لیکن کام یاب نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کے فوجی مرنے لگے‘ صحت مند لوگ بھی تیزی سے اس موذی مرض کا شکار ہوتے چلے گئے‘ امیر تیمور ڈر گیا‘ اس نے پڑاؤ اٹھایا اور واپسی کے لیے دوڑ پڑا لہٰذا وہ تیمور جو زندگی میں کسی سے نہیں ڈرا جس نے لاکھوں لوگ قتل کر کے ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے تھے‘ وہ بھی ہندوستان کے ہیضے کا مقابلہ نہ کر سکا اور یہاں سے فرار ہو گیا لیکن یہ اس کی کم زوری اس کی بزدلی نہیں تھی‘ ہند میتھالوجی کے مطابق ہندوستان کے ہیضے کا مقابلہ بھگوان بھی نہیں کر سکتے ‘ یہ حقیقتاً خوف ناک ہوتا تھا اور یہ شہر کے شہر اجاڑدیتا تھا۔
آج سے دو سو سال پہلے تک مون سون ہندوستان کا سب سے بڑا دفاع ہوتا تھا‘ اس میں ہندوستان میں دو انہونیاں ہوتی تھیں‘ پہلی انہونی‘ اٹک سے لے کر مدراس تک تمام دریا کناروں سے باہر آ جاتے تھے‘ ندیاں اور نالے بھی بھر جاتے تھے جن کے بعد تاحد نظر دلدل ہی دلدل ہوتی تھی ‘ بڑی سے بڑی فوج اس دلدل میں دھنس کرفنا ہو جاتی تھی یا پھر دریاؤں میں غرق ہو جاتی تھی لہٰذا سینٹرل ایشیا کے ہر طالع آزما کے لیے ہندوستان سے مون سون سے پہلے نکلنا ضروری ہوتا تھا ورنہ وہ واپس جانے کے قابل نہیں رہتا تھا‘ دوسری انہونی مون سون کے بعد ہندوستان کے تمام میدانی علاقوں میں ہیضہ پھوٹ پڑتا تھا اور لوگ قے اور اسہال کے ہاتھوں مرنے لگتے تھے۔
انگریز آیا تو اس نے ایک دو بارشوں کے بعد اندازہ کر لیا ہم نے اگر اس کا فوری حل نہ نکالا تو ہم سب مارے جائیں گے چناں چہ اس نے ادویات بنوائیں اور دوسرا پہاڑوں پر گرمائی اسٹیشن بنا لیے‘ انگریز مون سون اسٹارٹ ہونے سے قبل مری‘ شملہ‘ دارجلنگ‘ فورٹ منرو اور زیارت جیسی بلند جگہوں پر شفٹ ہو جاتا تھا اوربارش اور گرمیاں گزار کر نیچے آتا تھا‘ سینٹرل ایشیا میں تین سو سال پہلے تک اجناس‘ جانور اور دولت کم ہوتی تھی چناں چہ کوئی نہ کوئی طالع آزما لشکر لے کر مارچ کے مہینے میں ہندوستان میں داخل ہو جاتا تھا اور مارتا دھاڑتا ہوا دلی پہنچ جاتا تھا‘ پنجاب اس وقت بھی ہرابھرا تھا لیکن ہر سال کی یلغار کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے پنجابی پکے مکان نہیں بناتے تھے۔
زیادہ جانور بالخصوص گھوڑے نہیں پالتے تھے اور بڑے کھیت کاشت نہیں کرتے تھے‘ اس کی وجہ سینٹرل ایشین فوجیں تھیں‘ پنجابی سمجھتے تھے ہم اگر پکے مکان بنائیں اور بڑی کھیتیاں آباد کریں گے تو کل منگول آ کر ان پر قبضہ کر لیں گے‘ ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ لہٰذا پنجابی ’’سادہ لیونگ‘‘ پر چلے گئے‘ کچا کوٹھا‘ ایک بھینس‘ آٹھ دس بکریاں‘ جتنے لوگ اتنی چارپائیاں اور چار ماہ کے دانے بس پنجابی کی کل کائنات یہ ہوتی تھی‘ پنجابی یلغاریوں کے آنے سے پہلے یہ اناج بھی ختم کر دیا کرتے تھے‘ یہ گھر بھی دو بناتے تھے‘ کھیتوں پر ڈیرہ ہوتا تھا اور گاؤں میں مکان‘ ڈیرے پر حملہ ہو جاتا تھا تو یہ مال (مویشی) لے کر گاؤں میں گھس جاتے تھے اور گاؤں پر قبضہ ہو جاتا تھا تو یہ ڈیرے پر چلے جاتے تھے‘ پنجاب اس عدم تحفظ اور کم تر لیونگ اسٹینڈرڈ کے ساتھ پروان چڑھا‘ ان دونوں مسئلوں نے پنجابیوں کے ڈی این اے میں ڈنگ ٹپاؤ فلاسفی پیدا کر دی۔
ہم پنجابی کسی مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کرتے‘ ہم صرف فائر فائیٹنگ کرتے ہیں‘ دن گزارتے ہیں اور اس گزارہ گزاری میں خود بھی گزر جاتے ہیں‘تاریخ بتاتی ہے ہن قبائل سے لے کر نادر احمد شاہ ابدالی تک کے حملوں سے پہلے دلی کے حکمرانوں نے پنجاب کی غیرت جگانے کی کوشش کی‘ انھیں فوجیں کھڑی کرنے اور قلعے بنانے کی ترغیب دی لیکن ہم نے صاف انکار کر دیا‘ہم پر جب بھی کوئی حملہ آور ہوتا تھا تو ہم کہتے تھے ’’بس ساون تک ڈنگ ٹپاؤ‘‘ یعنی ساون تک دن گزاریں اس کے بعد بارش ہو جائے گی اور دشمن کی فوج پانی میں بہہ جائے گی یا پھر ہگ ہگ (اسہال) کر مر جائے گی‘ ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پنجاب کا یہ فلسفہ درست بھی تھا‘ جب قدرت نے مون سون کی شکل میں پنجاب کو بہترین دفاع دے رکھا تھا تو پھر فوج پالنے اور اس کے نخرے برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔
ہم پنجابی آج بھی اسی طرح سوچتے ہیں‘ ہم صرف دن گزارتے ہیں‘ مسئلہ حل نہیں کرتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ موجودہ صورت حال دیکھ لیجیے‘ 2014میں عمران خان نے پہلی بار اسلام آباد پر یلغار کی تھی‘ عمران خان کو یہ راستہ اسٹیبشمنٹ نے دکھایا تھا‘ اس زمانے کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام عمران خان کو اسلام آباد لے کر آئے تھے‘ جنرل ظہیر ریاست کے گیٹ کیپر تھے‘ یہ اچھی طرح جانتے تھے گھر میں کہاں کہاں خامیاں ہیں اور ان خامیوں سے کیسے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ عمران خان کے لیے فنڈنگ کا بندوبست بھی کیا گیا‘ اسے سوشل میڈیا بھی بنا کر دیا گیا اور ٹیلی ویژن چینلز کو بھی اس کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا‘ عمران خان آج جو کچھ کر رہا ہے اسے یہ ٹریننگ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے دی تھی‘ یہ بہت اچھا اور ہونہار شاگرد ثابت ہوا اور یہ بہت جلد جان گیا ریاست کی جان کس کس طوطے میں ہے اور کس کی گردن کس وقت موڑی جائے تو کہاں کہاں سے چیخ نکلتی ہے لہٰذا یہ آج روز ریاست کی گردن مروڑ رہا ہے اور منہ سے چیخ نکلوا رہا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور ریاست دونوں اب اپنی ہی تخلیق کا شکار ہو رہے ہیں‘ عمران خان نے جیل میں بیٹھ کر ریاست کو کیوں آگے لگارکھا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ہماری ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے خان کو بتا دیا تھا فوج کبھی اپنی پرانی غلطی نہیں دہراتی‘یہ ہمیشہ نئی غلطی کرتی ہے‘ مشرقی پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا تھا ہم دوبارہ کبھی کسی صوبے میں ملٹری آپریشن نہیں کریں گے اور کسی وزیراعظم کو پھانسی نہیں ہونے دیں گے‘ یہ وہ فیصلے تھے جن کی وجہ سے جنرل کیانی کے دور میں طالبان کے خلاف اس وقت تک کے پی میں آپریشن نہیں ہوا تھا جب تک تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی سرداروں نے ایک آواز ہو کر آپریشن کا مطالبہ نہیں کیا تھا‘ فوج اس بار بھی پی ٹی آئی کے خلاف کے پی میں کوئی آپریشن نہیں کرے گی‘ جنرل مشرف نے اپنے زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو باہر بھجوا دیا تھا‘ انھیں جیل میں نہیں رکھا‘ عمران خان جانتا ہے یہ مجھے دوسرا بھٹو نہیں بنائیں گے چناں چہ یہ روزانہ سینہ ٹھونک کر ریاست کو للکارتا ہے‘ یہ ایک سلگتا ہوا بم بن چکا ہے جس سے روزانہ دھواں نکلتا ہے اور ریاست دور کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہتی ہے۔
میں اسلام آباد کا شہری ہوں‘ میں نے دس سال سے اس شہر میں سکون کا سانس نہیں لیا‘ عمران خان نے 2014میں آ کر سڑکیں‘ اسکول‘ مارکیٹیں اور دفاتر بند کرائے تھے‘ یہ اس کے بعد کبھی جم کر کھل نہیں سکے‘ آج شہر کا ہر شخص رات کے وقت اس نااعتباری کے ساتھ سوتا ہے کہ کل معلوم نہیں میرے بچے اسکول اور میں دفتر جا سکوں گا یا نہیں‘ ہم اسلام آبادی دس سال سے کنٹینروں کے درمیان بھی پھنسے ہوئے ہیں‘ عمران خان یا سعد رضوی کا ایک بیان آتا ہے اور شہر کنٹینروں کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے اور سڑکوں پر پولیس کا مارچ شروع ہو جاتا ہے اور حکومت ایک لمحے کے لیے نہیں سوچتی بچے اسکول کیسے جائیں گے۔
مریض اسپتال کیسے پہنچیں گے‘ زخمیوں کا آپریشن کیسے ہو گا اور دکانیں‘ منڈیاں اور دفتر کیسے کھلیں گے؟ کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی‘ ائیرپورٹس کے راستے بھی ہر دوسرے دن بند ہو جاتے ہیں‘ ائیرپورٹ پہنچنا ایک مسئلہ ہوتا ہے اور اس سے گھر واپس آنا دوسرا مسئلہ‘ انٹرنیٹ بند کرنا بھی ریاست نے معمول بنا لیا ہے اور اس سے کس کا کیا حرج ہو تا ہے ریاست کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی‘ اس سے ملک کی معاشی حالت کس قدر بگڑ گئی ہے اور لوگ کس تکلیف‘ کس اذیت سے گزر رہے ہیں؟ اس کا کسی کو احساس نہیں‘ مریض سڑکوں پر مر رہے ہیں۔
خواتین گاڑیوں میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور اسٹوڈنٹس اسکولوں کالجوں میں محصور ہو جاتے ہیں لیکن کسی کوذرا برابر فکر نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ پوری ریاست ڈنگ ٹپا رہی ہے‘ جج ہوں‘ بیوروکریٹس ہوں‘ وزراء ہوں یا پھر ریاستی اداروں کے فیصلہ ساز لوگ یہ سب ڈنگ ٹپا رہے ہیں‘ یہ کسی ایسے مون سون کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد مسائل کے انبار کو ہیضہ ہو جائے گا اور یہ غلاظت اگل کر ختم ہو جائیں گے‘یہ سب امید پر زندہ ہیں‘ ان میں سے کوئی شخص عمرانی مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کر رہا‘ یہ لوگ کریں گے بھی نہیں کیوں کہ ڈنگ ٹپاؤ ہمارا ڈی این اے ہے اور عمران خان بھی اس ڈی این اے کا غلام ہے اور ریاست کے اہم ترین لوگ بھی چناں چہ یہ مسئلہ کسی ایک فریق کے انتقال تک اسی طرح جاری رہے گا‘ اس سے پہلے ہم سب اسی طرح ڈنگ ٹپاتے رہیں گے۔
ایسی ہوتی ہیں سیاسی جماعتیں؟