کرم حملے میں 100 ہلاکتوں کے بعد بھی شیعہ سنی جھڑپیں جاری
21 نومبر کو افغانستان کی سرحد سے منسلک شیعہ اکثریتی آبادی پر مبنی پاکستان کے ضلع لوئر کرم میں 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 109 سے زائد افراد کی ہلاکتوں کے بعد بھی کرم میں حالات کشیدہ ہیں اور متحارب قبائل کے مابین شیعہ سنی بنیاد پر ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری ہے۔ گاڑیوں کا یہ قافلہ پارہ چنار کی جانب گامزن تھا۔
یاد رہے کہ سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر حملہ اس سڑک پر ہوا جس کو اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر ہونے والے حملے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔ ضلع کرم میں افسوس ناک واقعے کے بعد شروع ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 85 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ ضلع کرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں مسافر گاڑیوں پر ہوئے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد میں سے بیشتر کا تعلق پاڑہ چنار اور قریبی علاقوں میں آباد اہلِ تشیع برادری سے تھا۔ اس واقعے کے ردعمل میں جمعہ کی شب چند مظاہرین نے سُنی اکثریتی علاقے بگن پر دھاوا بول کر دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیا جس کے نتیجے میں حکام کے مطابق مزید 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مسلح لشکر کی جانب سے بگن میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور حملوں میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا جس کے بعد بگن اور دیگر نزدیکی علاقوں سے مقامی آبادی نے نقل مکانی کی۔
خیال رہے کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ ضلع کرم تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔ کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔ پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ رواں سال اگست کے مہینے میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران 43 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اسکے بعد ایک ہفتے تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔
اس وقت ضلع کرم کی صورتحال بارے مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار کو بھی لوئر کرم کے شیعہ اکثریتی گاؤں علی زئی کے قریب شدید جھڑپیں جاری رہیں۔ اس کشیدگی کا آغاز تب ہوا ہے جب مندروی کے علاقے، جو بگن سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سے ایک بڑے لشکر نے اچانک علی زئی گاؤں کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا ہے۔ مقامی پولیس نے بتایا کہ مندروی سے روانہ ہونے والے اِس لشکر نے پہلے علی زئی کی داخلی حدود میں موجود دو گاؤں پر حملہ کیا جہاں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی شدید لڑائی کے بعد مسلح لشکر نے ان دونوں گاؤں پر قبضہ کر لیا۔ اس حوالے سے پولیس کا دعویٰ ہے کہ اب یہ مسلح لشکر تیزی سے علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لشکر میں موجود افراد کے پاس بھاری ہتھیار بھی موجود ہیں جبکہ علی زئی کے سرحدی علاقوں میں موجود مورچوں سے اس لشکر پر شدید فائرنگ کی جا رہی ہے تاکہ اس سے روکا جا سکے۔
ڈپٹی کمشنر کرم کے مطابق علی زئی کے قریبی علاقوں سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم نہ تو پولیس اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ علی زئی کے مقامی رہائشی اور مشر سید حسین کے مطابق مندروری سے چلنے والے مسلح لشکر نے علی زئی کے دو گاؤں پر اتوار کی صبح کے اوقات میں حملہ کیا تھا جہاں پر مقامی لوگوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ ہوا ہے۔
اب یہ مسلح لشکر علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے جسے مورچوں میں موجود مسلح افراد کی جانب سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر لشکر اِسی طرح بڑھتا رہا تو ممکنہ طور پر علی زئی پہنچنے پر بہت زیادہ خون خرابہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختون خوا حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حکومت کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد قبائلی عمائدین اور مشران سے جرگہ کر رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیرسٹر سیف نے بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر حکومتی وفد کی اہل تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں جس کے دوران مثبت گفتگو ہوئی ہے اور اب اگلے مرحلے میں اہل سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔
24 نومبر کا احتجاجی منصوبہ کسی بھی وقت منسوخ ہونے کا امکان
کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے مطابق کرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مدد حاصل کی جا رہی ہیں۔ مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہوئے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی نماز جنازہ کے بعد آبائی علاقوں میں ادا کی گئی تھی جس کے بعد سنی اکثریتی علاقے بگن کے بازار میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دکانوں سمیت املاک کو آگ لگا دی گئی جس سے علاقے میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعے کی شام شیعہ اکثریتی علاقے علی زئی سے طوری قبائل کی جانب سے لشکر کشی کا آغاز ہوا تھا جو بگن پہنچا۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ بگن میں لشکر کی جانب سے متعدد مکانات اور بگن بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپ کو بھی آگ لگائی گئی۔ اس حملے کے بعد شیعہ تنظیم مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا