لکھاری سیاستدانوں نے اپنی کتابوں میں کیا انکشاف کیے؟

دنیا بھر میں سیاستدان کتابیں لکھتے ہیں اور اہم راز آشکار کرتے ہیں۔ کچھ سیاستدان اپنے سیاسی کیریئر کے دوران کتابیں لکھتے ہیں اور کچھ سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد۔ پاکستان میں ایسے ہی سابق وزرائے اعظم اور صدور گزرے ہیں جنھوں نے کتابیں لکھیں اور لوگوں کو ایسی باتیں بتائیں کہ جو ہمیشہ سے ایک راز تھیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی جنہوں نے سکندر مرزا کو جلاوطن کیا اور صدر کی کرسی پر قابض ہوئے ۔سیاسی کشیدگی کے بعد ڈرامائی انداز میں اقتدار میں آنیوالے صدر ایوب خان کی کتاب Friends Not Masters
1967 میں شائع ہوئی جس میں سابق فوجی صدر نے پاک امریکی تعلقات کے نشیب و فراز میں اس وقت کی علاقائی صورت حال کے پیش نظر بین الاقوامی اور جنوبی ایشیا کی سطح پر بھارت سے کشیدہ تعلقات اور پاکستان کے مسائل کا تفصیلی ذکر کیا۔ صدر ایوب نے امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان امریکہ کی کوئی کالونی نہیں ہے لیکن یہ نتیجہ انہوں نے تب نکالا جب وہ امریکہ کی نوکری کر چکے تھے اور اقتدار سے فارغ ہونے والے تھے۔ انکی کتاب سے قطع نظر ریمنڈ ڈیوس کیس اور ایبٹ آباد امریکی آپریشن جیسے واقعات آج بھی پاکستان کو امریکہ کی کالونی ہی ثابت کرتے ہیں۔
اب ذکر کرتے ہیں پاکستانی تاریخ کے دبنگ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جو کہ جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر ملک کے نویں وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 35 سال قبل ان کی شائع ہونے والی کتاب If I Am Assassinated دراصل اُس وائٹ پیپر کا جواب ہے جو جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کے بارے میں جاری کیا تھا اور جس کا مقصد ان کی سیاسی ساکھ کو تباہ اور برباد کرنا تھا۔بھٹو 1971 سے 1977 تک سول چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر، صدر اور پھر وزیراعظم کی حیثیت سے برسرِ اقتدار رہے اور پھر ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں چار اپریل 1979 کو پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔ بھٹو راولپنڈی جیل میں تھے اور وائٹ پیپر یا قرطاسِ ابیض کا جواب وہیں سے لکھ لکھ کر وکلا کے ذریعے بھیجتے تھے۔ اس طرح ایک دستاویز تیار ہوگئی جسے سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا لیکن فوجی حکومت نے پاکستان میں اُس کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی۔ یہ دستاویز لندن سمگل ہوئی۔ اس کی فوٹو کاپیاں سفارتخانوں اور ذرائع ابلاغ کو فراہم کی گئیں۔ اسی دستاویز کو دہلی کے وکاس پبلشنگ ہاؤس نے سنہ 1979 میں کتابی شکل میں چھاپا۔ اسی کتاب کی بنیاد پر بھٹو کی پھانسی کو تاریخ میں جوڈیشل ریمانڈر قرار دیا جاتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں 1988 میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے والی دختر مشرق شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی کتاب Reconciliation: Islam, Democracy, and the West کی جو محترمہ نے اپنے قتل سے ایک روز پہلے ہی مکمل کی تھی ، اس کتاب کو فروری 2008 میں شائع کیا گیا ، کتاب میں محترمہ نے دہشتگردی کو سیاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسلام سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے ، اس کتاب میں اسلامی دنیا کی تاریخ کا مطالبہ کیا گیا ہے ، اسلامی دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے مغربی کردار کا جائزہ بھی لیا گیا ہے مگر اس کتاب میں جدید اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہو کر مسلمانوں کو ایسا طریقہ بتایا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر وہ اپنا مستقبل بدل سکتے ہیں ۔
نواز شریف کا تختہ الٹ کر صدر کی کرسی پر براجمان ہونیوالے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کی کتاب In The Line Of Fire ستمبر 2006 میں شائع ہوئی جس میں مشرف نے اپنی زندگی کے اہم واقعات کو قلمبند کیا کہ کس طرح بچپن سے جوانی اور پھر فوج میں ان کا سفر شروع کیا ، وہ کیا سوچتے تھے؟ اس کتاب میں جنرل مشرف نے خود کو ایک بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لئے بے شمار جھوٹ بولے ہیں لیکن ایک سچ کا اعتراف کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کی حکومت نے ڈالروں کی خاطر سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب "چاہ یوسف سے صدا” اس وقت تحریر کی جب وہ 10 سال قید بامشقت اور 10 کروڑ روپے جرمانے کی سزا کے دوران پابند سلاسل رہے۔ ان کی کتاب میں کارگل کے موضوع کو اہم قرار دیا جاتا ہے جس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ کارگل پر قبضہ پاکستان آرمی لیڈرشپ کا ہمیشہ سے ایک پسندیدہ منصوبہ رہا۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں بھی ان کو آرمی قیادت نے ’کارگل قبضہ منصوبے‘ پر بریفنگ دی تھی لیکن ان کا موقف تھا کہ فوجی قوت کے ساتھ اس منصوبے پر عمل تو کیا جا سکتا ہے لیکن بعد ازاں کارگل پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے سفارتی سطح پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اور بعد میں مشرف دور میں یہی ہوا اور اس منصوبے کا انجام ہزاروں پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر ہوا۔