نواز شریف کس مقصد کیلئے سیاسی طور پر دوبارہ متحرک ہوئے ہیں ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے میاں نواز شریف کو بوڑھے شیر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ برس سے آنکھیں موند کر لیٹے ہوئے رائے ونڈ کے مکین نے اچانک انگڑائی لے کر پوری آنکھیں کھول لی ہیں اور سیاسی طور پر متحرک ہونا شروع کر دیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بوڑھے شیر کی یہ انگڑائی وقتی ہے یا حتمی ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بوڑھا شیر سال سوا سال سے آنکھیں موندے ہوئے تھا، البتہ اسکی ایک آنکھ ادھ کھلی رہتی تھی جس سے وہ ارد گرد کا جائزہ لیتا رہتا تھا، جب سے اس نے سیاست کی چراگاہوں پر مالکانہ حقوق کا دعویٰ کرنے والے عسکری نگہبانوں سے صلح کی تھی، اسکی جماعت کا سیاسی بیانیہ ختم ہو کر رہ گیا تھا اور وہ خود عوامی مقبولیت سے محروم ہو گیا تھا۔ شریف خاندان اور نون لیگ کو عسکری قبولیت مہنگی تو پڑی مگر اس نے چھوٹے شیر اور پنجاب کی شیرنی کو چراگاہوں کی اقتدار گاہ میں داخل ضرور کرا دیا۔ بوڑھے شیر کی حکمت عملی یہ لگتی تھی کہ کارکردگی دکھا کر حریف چیتے کو چت کیا جائے اور نگہبانوں سے اقتدار میں جتنا حصہ مل سکتا ہے وہ بھی لے لیا جائے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ماضی میں بوڑھے شیر نے نگہبانوں کے ساتھ دوستی اور دشمنی دونوں نبھانے کے تجربات کئے، لیکن نہ تو دوستی دیرپا نکلی اور نہ دشمنی سے کامیابی مل سکی۔ بوڑھا شیر دراصل چھوٹے شیر کے اصرار پر عسکری نگہبانوں سے دوستی پر آمادہ ہوا ہے۔ اب وہ مخمصے سے نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کرنے لگا ہے اور اسی لیے نگہبانوں کے ساتھ چلنے پر پر آمادہ ہے۔ بوڑھے شیر نے جسطرح گوالمنڈی لاہور سے اپنی سیاست کا آغاز کر کے اپنا ووٹ بینک بنایا تھا اسی طرح اس نے اب اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں بار بار یہ اعلان ہوتا رہا کہ بڑے میاں صاحب پنجاب کے طوفانی دورے کریں گے مگر اب بوڑھے شیر نے پنجاب کی بجائے لاہور ہی پر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ والڈ سٹی اتھارٹی لاہور میں مسلسل خوبصورتی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی لیکن اسے سیاسی اونر شپ حاصل نہیں تھی۔ اب بوڑھے شیر نے انتہائی دانشمندی سے والڈ اتھارٹی اور لاہور کی سیاسی اونر شپ خود لیکر اسکی تعمیر و ترقی کا چارج سنبھال لیا ہے۔ دراصل پہلے بوڑھا شیر جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ لاہوریئے روزانہ اس سے ملتے تھے، تاجر ادے جپھیاں ڈالتے تھے، صنعت کار سرد کمروں میں اس سے کاروباری ملاقاتیں کرتے تھے۔ لیکن جب شیر اقتدار میں آیا تو عوام سے دور ہونے لگا۔ اس نے اپنا ٹھکانہ گوال منڈی کی بجائے رائیونڈ کی بند دروازوں والی حویلی میں بنا لیا جہاں کوئی نہ اسکی اجازت کے بغیر آ سکتا تھا اور نہ ہی مل سکتا تھا، اس دوری نے بوڑھے شیر کو خاندانی سکون تو فراہم کر دیا لیکن جنگل کے دیگر جانور اس سے نہ صرف فاصلاتی طور پر دور ہو گئے بلکہ ذہنی طور پر بھی مایوس ہو گئے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بوڑھے شیر نے شادی بیاہ اور اموات پر جانا بھی چھوڑ دیا، چنانچہ فاصلے اور بھی بڑھ گئے، کہاں رائیونڈ کا سرسبز جزیرہ اور کہاں پرانے لاہور کی پر پیچ گلیاں، ایسے میں تعلقات کا پل مذید کمزور اور خستہ تر ہو گیا، کہاں گوالمنڈی میں ساتھیوں کے ساتھ بسنے اور ہنسنے والا آزاد منش شیر اور کہاں جنگل سے دور رائیونڈ کے جزیرے میں الگ تھلگ ڈیرے میں قید شیر۔ چنانچہ نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا، تعلقات اور رشتوں کی ڈوریاں ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ لیکن سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب بوڑھے شیر نے انگڑائی لینے کے بعد اپنے حامیوں سے دوبارہ ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ اس کا گوالمنڈی کے اپنے پرانے علاقے میں جانا اور وفات پا جانے والوں کے گھروں میں فاتحہ پڑھنا ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اسکے فوری مثبت نتائج آنا تو ممکن نہیں لیکن اس کے دیرپا اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ بوڑھے شیر نے گزشتہ سال بھر میں مقبول عوامی سیاست سے تو دوری رکھی لیکن شیروں کے خاندان پر بھرپور توجہ دی۔ لندن میں مقیم حسن نواز اور اس کا خاندان اب بوڑھے شیر کے پاس رائیونڈ منتقل ہو چکا ہے۔ بوڑھے شیر کی غیر سیاسی بیٹی اسماء نواز اور اس کا شوہر علی ڈار بھی رائیونڈ کی کچھار میں ہی مقیم ہیں۔ جب سے بوڑھے شیر کی سیاسی جانشین مریم وزارت اعلی پر فائز ہوئی ہیں، اسماء نے بوڑھے شیر کا گھریلو نظام سنبھال لیا ہے۔ چند ہفتے پہلے بوڑھا شیر اپنے خاندان کے ہمراہ رائیونڈ کے قریب آباد ایک جدید بستی میں گیا اور سارا دن وہاں گزارا، دلچسپ بات یہ تھی کہ صنعت کاروں کے پنجاب میں دو گروپ ہیں، ایک کے سربراہ میاں منشا ہیں اور دوسرے کے سربراہ گوہر اعجاز ہیں، دونوں چنیوٹی ہیں مگر صنعت کاروں کی سیاست میں دونوں متحارب ہیں۔ پہلے تاثر یہ تھا کہ میاں منشا رائے ونڈ کے بوڑھے شیر کے زیادہ قریب ہیں، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بوڑھے شیر نے دونوں گروپوں کے ساتھ یکساں تعلق رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ آپسی اختلافات کے باوجود دونوں گروپس پہلے بھی شیروں ہی کو فنڈنگ اور حمایت فراہم کرتے تھے۔
غیر قانونی مقیم افغانوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز ہو گیا
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بوڑھے شیر کی انگڑائی لاہور کی سیاست میں ارتعاش پیدا کر رہی ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بوڑھا شیر مزید متحرک ہوگا یا پھر آدھی آنکھیں موند کر خاموشی سے سیاسی منظر نامہ دیکھے گا؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بوڑھا شیر مخمصے سے نکل کر نئی صورتحال میں اپنا کردار ادا کرے گا تاکہ مستقبل میں اپنی بیٹی مریم کو وزارت اعلی کے بعد وزارت عظمی بھی دلوا سکے۔