جنرل عاصم منیر ریاست کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر کیسے بن گئے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر بغیر کسی خواہش اور کوشش کے ریاست کے سب سے اہم اور مقبول ترین سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماشاء اللہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان زندہ سلامت ہیں اور فی الحال مقابلہ بھی انہی تینوں کے درمیان ہے, سیاسی پیروکار بھی ان کے ہی ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب وقت ان تینوں کے ہاتھوں سے پھسلتا چلا جا رہا ہے اور نئے چہرے انہیں آہستہ آہستہ پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ ایک نئی حقیقت یہ بھی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر مکمل طور پر غیر سیاسی ہونے کے باوجود عوامی طور پر بہت ذیادہ مقبول ہو چکے ہیں، ایسے میں کوئی بعید نہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد عوامی اور سیاسی اجتماعات میں انکے نام کے جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ مستقبل میں اور زیادہ مقبول ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اور بھی ذیادہ کمزور ہو جائے گی۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی منظر نامے میں کوئی انہونی نہ ہوگئی تو مستقبل میں تین بڑے سیاسی نام ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ عمران خان موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتے لیکن عملی طور پر پہلے انکی بیوی اور اب ان کی بہنیں ہی ان کی جماعت اور انکی سیاست چلا رہی ہیں، بلکہ اب تو پہلی بار ان کے دونوں صاحبزادوں نے لندن سے ایک انٹرویو دیتے ہوئے سیاست پر لب کشائی کی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پارٹی کا مکمل چارج لے چکے ہیں اور زرداری صاحب کے جانشین کے طور پر اپنے اختیارات کا مکمل استعمال بھی کر رہے ہیں۔ تیسری جانب نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز انکے سیاسی جانشین کے طور پر اپنی پوزیشن روز بروز مضبوط کر رہی ہیں، فوجی قیادت سے ان کے تعلقات مثالی ہیں، گویا اب اگلا سیاسی مقابلہ انہی تینوں کے درمیان ہو گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان اس وقت سیاسی بیک سیٹ پر ہیں فرنٹ پر اب مختلف چہرے چھا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تحریک انصاف کا ذکر ہو جائے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بے مثال کامیابی نے جنرل عاصم منیر اور فوج کا گراف بلند کر دیا ہے اور تحریک انصاف کے ویژن پر سوالات کھڑے دیئے ہیں جس نے حالیہ کشیدگی کے دوران فوج کا ساتھ دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی اور پاکستان کا مقدمہ لڑنے کی بجائے عمران کا مقدمہ لڑنے پر فوکس کیا۔

یاد رہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران عمران خان کے دونوں بیٹوں نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے میں صدر ٹرمپ سے بھی کردار ادا کرنے کو کہا۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ دراصل عمران اور جمائما کے  برطانیہ کی ایلیٹ کلاس کے نمائندے ہیں اور برطانیہ کی اشرافیہ انہی کی وجہ سے عمران خان کی حامی ہے، اسی لئے برطانوی ایلیٹ عمران کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے، تام فوجی اسٹیبلشمنٹ 9 مئی 2023 کو فوج میں بغاوت کی سازش کرنے والے منصوبہ ساز کو معاف کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔

دوسری طرف عمران کے حوالے سے امریکہ کا کوئی نرم گوشہ سامنے نہیں آیا، ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے صاحبزادے برطانوی اشرافیہ کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے ٹرمپ سے عمران کی رہائی کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن سفارتی ذرائع کے خیال میں امریکہ یا صدر ٹرمپ پاکستان سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرنے والے، گویا برطانوی اشرافیہ کی حمایت اور امریکی یہودی لابی سے برطانوی ایلیٹ کے قریبی تعلقات کے باوجود امریکی حکومت کی پاکستانی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی امکان نہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ایسے میں ذہن میں یہ سوال آتا ہے کیا عمران کے صاحبزادوں کی سیاست میں دلچسپی صرف والد کی رہائی تک ہے یا وہ مستقبل میں کوئی سیاسی کردار بھی ادا کرسکتے ہیں؟ میرے خیال میں عمران خان تو چاہیں گے کہ انکے بیٹے ان کی جگہ سنبھالیں لیکن یہ امکان بہت کم ہے کہ برطانوی اشرافیہ میں پلنے والے انکے صاحبزادے پاکستان آ کر یہاں کی مشکلات برداشت کریں۔ البتہ اس وقت علیمہ خان پارٹی میں سب سے طاقتور ہیں لیکن وہ عمران کے نام اور سہارے سے ہی طاقتور ہیں، عمران نے جس دن چاہا وہ علیمہ کو ڈانٹ پلا کر ان سے اختیارات واپس لے لیں گے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران نے اگر اپنے تجربہ کار ساتھی شاہ محمود قریشی ،کے لمبی جیل کاٹنے کے باوجود ،کبھی ان پر اعتبار نہیں کیا تو وہ کسی اور پر کیسے اعتبار کریں گے؟

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی سیاسی جانشینی یقینی ہوتی جا رہی ہے۔ وہ فوکسڈ ہو کر اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ فوج اور انکے درمیان خلا کافی حد تک پر ہو چکا ہے۔ دلچسپ ترین تبصرہ یہ ہے کہ لاہور سیکرٹریٹ میں 051 یعنی اسلام آباد کے کوڈ سے اب بہت کم کالز آتی ہیں، گویا مریم نواز بنا کسی مداخلت کے اپنا راستہ بنا رہی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مسلم لیگ ن یعنی اپنی پارٹی پر توجہ نہیں دی لیکن پنجاب کی حد تک اب انہی کی چلتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف سرے سے سیاست کرتے ہی نہیں وہ بہترین منیجر ہیں ابھی تک انہوں نے ایک ہی سیاسی جلسے سے خطاب کیا ہے اور وہ بھی دور دراز ڈیرہ غازی خان میں۔ ابھی یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ کیا نواز شریف نے مریم کو جانشین بنانے کے فیصلے سے شہباز شریف کو آگاہ کیا ہے یا نہیں؟ اندازہ یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف چونکہ بغیر کسی مزاحمت کے مریم نواز کو سفارتی تقریبات میں متعارف کروا رہے ہیں اس لئے لگتا ہے کہ انہوں نے بھی مریم نواز کی جانشینی کو تسلیم کرلیا ہے۔

عمران کے ساتھیوں کو انڈیا کے خلاف جیت ہضم کیوں نہیں ہو رہی ؟

اب رہ گئے بلاول اور پیپلز پارٹی کی سیاست۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بہت قابل اور ڈائنامک ہیں مگر اندھی سیاست میں قابلیت نہیں قرابت دیکھی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کی ایک لابی فریال تالپور کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے فی الحال ادی فریال تالپور یہ عہدہ لینے کیلئے تیار نہیں، وہ پسِ پردہ رہ کر ہی عوامی خدمت کا کام کرنا چاہتی ہیں۔ دوسری طرف بلاول کے بھارت کے خلاف جارحانہ بیانات کے باوجود فوج سے ان کی اتنی قربت نظر نہیں آ رہی جتنی بطورِ وزیر خارجہ ہوا کرتی تھی۔ بلاول کئی مواقع پر فوج کے خلاف غصے میں آ جاتے ہیں جسکا ردعمل بھی آتا ہے۔ ایسے مواقع پر صدر آصف علی زرداری مداخلت کر کے معاملات سلجھاتے ہیں۔ بلاول کا سندھ کی سیاست پر اب بھی ہولڈ ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار جونیئر کی طرف سے سیاست اور نہروں کے مسئلہ پر قوم پرستوں کے شور شرابے کے باوجود بلاول بھٹو کی مقبولیت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں لیکن بلاول بھٹو وزیر اعظم پاکستان تب ہی بن سکتے ہیں جب پنجاب سے 30 سے زائد نشستیں حاصل کریں اور ایسا تبھی ممکن ہے جب پیپلز پارٹی کا پنجاب میں احیا ہو یا پھر کوئی 30 نشستیں ان کی جھولی میں ڈال دے۔

Back to top button