گلگت بلتستان: وفاق کو معدنی وسائل چھیننے پر مزاحمت کی دھمکی

وزیر اعظم شہباز شریف حال ہی میں ایک انویسٹمینٹ فورم سے خطاب کے دوران گلگت بلتستان کے قیمتی معدنیاتی ذخائر کو بیچ کر پاکستان کے قرضے اتارنے کے اعلان کے بعد سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ قدرتی ذخائر سے بھی مالا مال ہے اسی لیے اس کو معدنیات کی جنت سمجھا جاتا ہے۔
چند روز پیشتر شہباز شریف نے پاکستان منزلز انویسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے گلگت کے قیمتی معدنی ذخائر فروخت کر کے پاکستان کے قرضے اُتارنے اور ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلانے کی بات کی تھی جس پر گلگت کے عوام کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گلگت کے سماجی اور سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم کی جانب سے گلگت بلتستان کے معدنی ذخائر کو بیچ کر ملک کا قرضہ اُتارنے کے اعلان افسوس ناک قرار دیا ہے۔ گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی نے قومی جرگہ بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پاکستان پہلے آئینی طور پر ہماری حیثیت کو تسلیم کرے اور اس کے بعد ہمارے قدرتی ذخائر پر نظر ڈالنے کا سوچے۔‘ کمیٹی کا کہنا کہ گلگت بلتستان کے قدرتی ذخائر عوامی ملکیت ہیں، ان پر پہلا حق یہاں کے عوام ہے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر گلگت بلتستان کے معدنی ذخائر نکالنے یا بیچنے کی کوشش کی گئی تو ایکشن کمیٹی اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہونے کے علاوہ نایاب پتھروں کا خزانہ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہاں کے پہاڑوں سے نکلنے والے قیمتی پتھروں کی مالیت کروڑوں روپے میں ہوتی ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کے ہاتھ جب ایک بھی قیمتی پتھر لگ جاتا ہے تو وہ مالا مال ہو جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی اور نایاب لیتھیم نامی دھاتیں بھی گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں بڑی مقدار میں موجود ہے۔ اس کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے جو بیش قیمت پتھر نکلتے ہیں وہ سستے داموں بک جاتے ہیں اور مائننگ کرنے والے مقامی افراد کو فائدہ بہت کم ہوتا ہے، جبکہ انہی پتھروں کو خریدنے والے باہر کے ملکوں میں کروڑوں روپوں میں فروخت کرتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ہنزہ کے جنرل سیکریٹری رضوان کریم ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ’وفاقی حکومت گلگت بلتستان میں موجود معدنیات سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاہم، بدقسمتی سے اب تک گلگت بلتستان کو آئینی و قانونی حقوق دینا نہیں چاہتی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان یہان کے عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں بھی بری طرح ناکام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہے مگر ہمارے عوام کو انکے جائز حقوق دینا اور انکی فلاح و بہبود میں اس کی رتی بھر دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔
گلگت بلتستان کے ایک سینیئر قانون دان عبدالسلام ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں مائنز اینڈ منرلز صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں اور وفاقی حکومت کا ان پر کوئی حق نہیں بنتا۔ گلگت بلتستان مائننگ کنسیشن 2016 کے تحت مائنز اینڈ منرلز کی لیز دینے اور منسوخی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’معدنیات کے لیے قواعد و ضوابط بھی صوبائی حکومت نے بنائے ہوئے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’جس علاقے سے معدنیات دریافت ہوں وہاں کے مقامی لوگوں کو رائلٹی ملتی ہے جس کا مائننگ کی تعین لیز پر دینے سے قبل کیا جاتا ہے، سائٹ کو ایک طریقہ کار کے تحت صوبائی حکومت کی جانب سے لیز پر دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم نے خطاب میں گلگت بلتستان کے علاوہ کے پی اور بلوچستان کی بات بھی کی تھی جو کہ عام تاثر کے حوالے سے تھی، اس بیان کو ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے۔‘ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان کی معدنیات عوام کی ہیں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ان پر قبضہ کرے اور نہ کبھی ایسا ممکن ہے۔‘
ان کے مطابق ’معدنی ذخائر کو نکالنے کے لیے حکومت کا ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے جس کے لیے لیز جاری ہوتی ہے اور پھر اس میں سے مقامی آبادی کو حصہ دیا جاتا ہے۔‘ انکا کہنا تھا کہ ’ گلگت بلتستان کی معدنیات کو استعمال میں لانے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور مقامی آبادی کو بھی فائدہ پہنچے گا لہذا اس حوالے سے وفاق کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت سوچ سمجھ کر کی جانی چاہیے۔