نون لیگ یا پی ٹی آئی: لاہور میں الیکشن کون جیتے گا؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دارالحکومت لاہور اس وقت انتخابی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں ملک کے کئی نامور سیاست دان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان انتخابات میں الیکشن کا روایتی جوش و خروش نظر نہیں آ رہا ہے، بہت سے امیدوار اس مرتبہ ڈور ٹو ڈور رابطے بھی نہیں کر سکے۔ شہر میں پاکستان مسلم لیگ نون کی یک طرفہ انتخابی مہم جاری ہے صرف چند نشستوں پر پیپلز پارٹی سرگرم ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف بالکل چپ سادھے دکھائی دیتی ہے۔لاہور میں قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلی کی تیس نشستوں میں سے بیشتر نشستوں پر مسلم لیگ نون کو برتری حاصل ہے لیکن اگر پی ٹی آئی الیکشن کے دن اپنے ووٹروں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بتایا کہ لاہور میں قومی اسمبلی کی چودہ نشستوں میں سے آٹھ نشستوں پر اس وقت نون لیگ کو برتری حاصل ہے جبکہ باقی چھ پر سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے لوگ سلمان اکرم راجہ اور سردار لطیف کھوسہ کی برتری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔الیکشن ماحول پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بتایا کہ اس الیکشن کے دو بڑے حریفوں میں سے پاکستان مسلم لیگ نون بہت ایکٹو ہے جبکہ تحریک انصاف بالکل غائب ہے۔ اس کی طرف سے کوئی بڑا جلسہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اسے انتخابی مہم چلانے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ تیسری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی لاہور میں صرف چند حلقوں تک محدود ہے۔ ” میرے خیال میں جس طرح دو ہزار اٹھارہ میں یک طرفہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کو لایا گیا تھا بالکل اسی طرح موجودہ الیکشن میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کو ایک یک طرفہ انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں لایا جا رہا ہے۔‘‘اس سوال کے جواب میں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے ووٹوں میں ڈھلنے کے کتنے امکانات ہیں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس مقبولیت تو ہے لیکن اس کے پاس الیکشن مشینری کتنی ہے، اس کا اندازہ آٹھ فروری کو ہی ہو سکے گا۔ ” دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں تقریبا تین سو پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے پولنگ ایجنٹ متعین کر سکے گی یا نہیں۔ ‘‘سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اس الیکشن کا صرف ایک ہی ‘انڈیکیٹر‘ ہے اگر انتخابات میں پچاس سے ساٹھ فی صد ووٹ پڑے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نکلا ہے اور اسے فائدہ ہوگا لیکن اگر یہ شرح چالیس اور پچاس فیصد کے درمیان رہی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو نہیں نکال پائی۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹروں کو اپنے امیدواروں اور ان کے مختلف انتخابی نشانات کا پتا چلانے میں دقت کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ نون کے انتخابی نشان شیر، پاکستان پیپلز پارٹی کے تیر، جماعت اسلامی کے ترازو، استحکام پاکستان پارٹی کے عقاب اور تحریک لبیک پاکستان کے نشان کرین کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے لاہور میں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے امیدوار پیالے، ڈائس، ٹرالی، وکٹ، ریڈیو، ڈولفن، گھڑی، ریکٹ، لیپ ٹاپ اور انگریزی حرف تہجی ”کے‘‘ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
یاد رہے پاکستان کے متعدد وزرائے اعظم بشمول نواز شریف، شہباز شریف، ذولفقار علی بھٹو، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور نگران وزیر اعظم معراج خالد بھی اس شہر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان بھی لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ڈوئچے ویلے کی طرف سے لاہور کے انتخابی حلقوں میں اتوار اور پیر کے روز کیے جانے والے ایک تفصیلی سروے میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اس کے مطابق لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر ایک سو سترہ میں پی ٹی آئی کے علی اعجاز بٹر کے مقابلے میں عبدالعلیم خان کی پوزیشن بہت بہتر ہے اس حلقے میں مسلم لیگ نون نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عبدالعلیم خان کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا ہے۔ بعض ووٹروں کے مطابق اس حلقے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ نون لیگ کے ووٹرز کیا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ نون کے کئی کارکن یہاں اپنی پارٹی کا امیدوار کھڑا نہ کرنے پر ناراض بھی ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر ایک سو اٹھارہ میں مسلم لیگ نون کے حمزہ شہباز کی فتح یقینی سمجھی جا رہی ہے۔ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ ہیں جو پچھلے کئی مہینوں سے جیل میں ہیں۔ ان کی گراونڈ پر سرگرمیاں بہت زیادہ نہیں ہیں۔حلقہ نمبر ایک سو انیس میں مریم نواز کو فی الحال سبقت حاصل ہے، ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ایک محبوس لیڈر کے بھائی شہزاد فاروق میدان میں ہیں۔حلقہ نمبر ایک سو بیس میں ایاز صادق کا مقابلہ پی ٹی آئی کے عثمان حمزہ اور پیپلز پارٹی کے منیر احمد سے ہے۔جبکہ این اے ایک سو اکیس میں پی ٹی آئی کے وسیم قادر وکٹ کے نشان پر مسلم لیگ نون کے شیخ روحیل اصغر کے مد مقابل ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر ایک سو بائیس میں مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق کو پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ اس حلقے کی پڑھی لکھی جدید آبادیوں میں خواجہ سعد رفیق کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی حلقے سے عمران خان بھی دو ہزار اٹھارہ میں جیت چکے ہیں۔ ڈیفنس میں رہنے والے پی ٹی آئی کے لوگ اس سیٹ کو جیت لینے کے دعویدار ہیں۔حلقہ نمبر ایک سو تئیس میں پی ٹی آئی کے افضل عظیم اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کے میاں شہباز شریف کی پوزیشن کافی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ حلقہ نمبر ایک سو چوبیس میں مسلم لیگ نون کے رانا مبشر پاکستان تحریک انصاف کے ضمیر احمد ایڈوکیٹ کے سامنے ہیں۔
حلقہ نمبر این اے ایک سو پچیس میں پی ٹی آئی کے رہنما رانا جاوید عمر نون کے محمد افضل کھوکھر کے مقابلے میں ہیں۔اس حلقے میں صوبائی سیٹوں پر مضبوط امیدواروں کی وجہ سے پی ٹی آئی اپنی جیت کے بارے میں دعویدار ہے۔ این اے ایک سو چھبیس میں نون کے سیف الملوک کھوکھر پی ٹی آئی کے ملک سیف الملوک ، جماعت اسلامی کے امیرالعظیم اور پیپلز پارٹی کے امجد علی سامنے ہیں۔
این اے ایک سو ستائیس میں بلاول بھٹو کے مقابلے میں مسلم لیگ کے عطا تارڑ، اور پی ٹی آئی کے ظہیر عباس میدان میں اترے ہیں۔ پورے جوش و خروش کے ساتھ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم میں شریک جیالوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو لاہور کے اس حلقے میں جیت کر سر پرائز دے سکتے ہیں۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نے کسی ” ڈیل‘‘ کے نتیجے میں بلاول بھٹو کے مقابلے میں کسی مضبوط لیڈر کو سامنے لانے سے گریز کیا ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی آسانی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی یہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
این اے ایک سو اٹھائیس لاہور کا مین حلقہ ہے جو والٹن، گلبرگ ، نیوگارڈن ٹاون اور ماڈل ٹاون سے ہوتا ہوا علامہ اقبال ٹاون تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں ممتاز قانون دان سلمان اکرم راجہ کا مقابلہ استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہاں بھی بہت سخت مقابلے کی فضا ہے اور پی ٹی آئی اس حلقے کو بھی امید افزا نظروں سے دیکھ رہی ہے۔
شاہدرہ اور اس کے قریبی علاقوں پر مشتمل این اے ایک سو انتیس میں مسلم لیگ نون کے حافظ نعمان کا مقابلہ حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے احمد جمیل راشد اور پیپلز پارٹی کے اونگ زیب برکی بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کے آبائی حلقے این اے ایک سو تیس اسلام پورہ، ساندہ وغیرہ میں میاں نواز شریف کے مقابلے میں پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد الیکشن لڑ رہی ہیں ڈاکٹر یاسمین راشد پچھلے کئی مہینوں سے پابند سلاسل ہیں۔ مسلم لیگ نون نواز شریف کی فتح کو یقینی بتا رہی ہے۔