لاہور کے انڈر ورلڈ بدمعاشوں کی لڑائی میڈیا پر کیوں آگئی؟

 

 

 

 

لاہور کے بدنامِ زمانہ روایتی حریف، انڈر ورلڈ ڈان گوگی بٹ اور ٹرکاں والا گروپ اب میڈیا کے میدان میں بھی آمنے سامنے آ گئے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کو دئیے گئے انٹرویوز میں دونوں گروپ نہ صرف ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں بلکہ ماضی کے ایک دوسرے کے جرائم اور خفیہ تعلقات کے راز بھی کھولتے جا رہے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اس ساری صورتحال کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ قانون کو مطلوب یہ ملزمان آزادی سے میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر انٹرویوز دیتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ لاہور پولیس محض تماشائی بنی بیٹھی نظر آتی ہے جس سے یہ تأثر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ پنجاب میں طاقتور گروہوں کے سامنے قانون بے بس ہو چکا ہے۔

 

خیال رہے کہ لاہور کے بدنام زمانہ جرائم پیشہ گوگی بٹ اور ٹرکاں والا گروپوں میں پولیس اور عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا وار شروع ہوگئی ہے۔ اس دوران دونوں حریف ایک دوسرے کے بارے میں ان واقعات کو دہراتے نظر آ رہے ہیں، جن میں عام آدمی کو سزا سنادی جاتی ہے لیکن ان دونوں میں سے تا حال کوئی اس عمل سے نہیں گزرا۔ جبکہ ان کی حمایت اور مخالفت میں رہنے والا کوئی قتل کر دیا گیا اور کوئی پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچا۔

 

بٹ اور ٹرکاں والا گروپ کے مابین میڈیا وار کا آغاز نام نہاد تاجر رہنما خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کی میر بالاج قتل کے بعد رو پوشی ختم کر کے منظر عام پر آنے سے ہوا  خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ نے الزام لگایا تھا کہ ہمارا اور ٹرکاں والا گروپ کا کوئی لین دین نہیں،مجھے جے آئی ٹی سے تحفظات ہیں تاہم ٹرکاں والے گروپ کے پولیس کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ یہ ہمیں ایسے ہی مقدمات میں ملوث کر دیتے ہیں۔ مخالف ٹرکاں والا گروپ کا ذکر کرتے ہوئے گوگی بٹ کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ جسٹس فار بالاج چلایا گیا ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ میر بالاج ایک معصوم انسان تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے خلاف کئی مقدمات درج تھے جن کا ریکارڈ موجود ہے۔

جس کے بعد بلا ٹرکاں والا، ٹیپوٹرکاں والا اور میر بالاج خاندان کے سر براہ بچھو پہلوان نے گوگی بٹ کے موقف کی نفی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ پیشہ ور مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں اور متعدد افراد کا خون ان کے سر پر ہے جن میں ایم ایس ایف کے سابق رہنما ارشد امین چودھری کے شبے میں اس کے بھائی کو دیال سنگھ کالج کے باہر قتل کرنا بھی شامل ہے۔ اسی قتل کیس میں صلح کیلئے بیٹھک ہوئی تو وہاں سے واپس جاتے ہوئے ارشد امین کو بھی قتل کر دیا گیا۔ بچھو پہلوان نے مزید بتایا کہ ملک پارک میں ایک جھگڑے میں آٹھ افراد کی ہلاکت اور اٹھارہ کے زخمی ہونے کی ایف آئی آر میں بھی طیفی بٹ اور گوگی بٹ نامزد ہیں۔ جبکہ یہ مقدمہ بھی ان کے خلاف درج کروانے کی کوشش کی گئی تھی ، تاہم چونکہ وہ حملے کے وقت ہسپتال میں داخل تھے جس پر ان کے خلاف لکھی ہوئی درخواست پھاڑ دی گئی تھی۔

 

بچھو پہلوان نے مزید بتایا کہ بٹ خاندان سے ٹرکاں والا گروپ کی دشمنی کا آغاز اکبری منڈی سے ہوا تھا۔ اسلم ٹانے والا اور نوید لمے والے کو بھی انھوں نے مروایا۔ اب یہ لوگ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم پاک ہیں؟ انھوں نے پولیس حکام سے اپیل کی کہ وہ ہم دونوں کو بلا لیں۔ اگر ان کی ایک بات بھی غلط ثابت ہو جائے تو انھیں گولی ماردیں اور تاہم اگر ان کی ساری باتیں درست نکلیں تو گوگی بٹ اور طیفی بٹ سمیت ملزمان کو سخت سزا دی جائے ان کا مزید کہنا تھا اس کیلئے بڑا آسان طریقہ ہے کہ اگر پولیس تھوڑی سی محنت کرے تو تمام مقدمات کے مدعیان زندہ ہیں۔ ان مقدمات کے مدعی بھی زندہ ہیں جو مقدمات ہمارے خلاف درج ہوئے ہیں۔ ان کو بلا کر پوچھ لے سارے حقائق سامنے آ جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلا پہلوان یعنی بلا ٹرکاں والا  کے قتل کا مجرم وحید عرف وحیدیاں بھی جیل میں سزا کاٹ رہا ہے، اس کا بیان پڑھ لیں۔ سارے حقائق پولیس ریکارڈ پر موجود بیان میں واضح ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں قرآن کریم کی بات نہیں کرتا یہ تو بہت بڑی بات ہے، گوگی اپنے چھوٹے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ دے کہ وہ ملوث نہیں، ہمارے جو قتل ہوئے اور جو ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات درج ہوئے وہ اس نے نہیں کروائے تو میں سب کچھ معاف کر دوں گا ۔ سی سی پی اور وزیر اعلیٰ خود تحقیقات کریں اور انھیں انصاف دیں۔ بچھو پہلوان کا کہنا تھا کہ اب پہلی بار پولیس نے تھوڑی پیش رفت کی ہے ورنہ اس سے پہلےپولیس والے خود ہی مک مکا کر لیتے تھے۔

 

تھانے اور کچہری کے بجائے باہمی معاملات میڈیا میں لانے اور میڈیا وار شروع کرنے پر دونوں متحارب گروپوں کے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ لاہور کے یہ دونوں بدنام ڈان گروپس خود کو معصوم ثابت کرنے کیلئے میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دونوں جرائم پیشہ گروپ پولیس سے تعلق داری بھی رکھتے ہیں اور پولیس پر جانبداری کا الزام بھی لگاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے ڈان بن کر خوف و ہراس پھیلانے والے گروپوں کی لسٹ میں دونوں متحارب گروپوں کے اہم لوگ شامل ہیں اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں گروپ خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم لگتا یہی ہے کہ ان دونوں گروپوں کے سرکردہ لوگوں کا انجام قریب ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!