امریکہ نے پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے کی راہ کیسے ہموار کی؟

دہائیوں تک اپنی سلامتی اور بقاء کیلئے امریکہ پر انحصار کرنے والے خلیجی ممالک نے اب واشنگٹن کے بغیر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد طے پانے والا پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف خطے میں ایک نئی صف بندی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اسے عالمی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ سے بتدریج آزادی کی جانب پہلا مضبوط قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق فلسطین کے معاملے میں واشنگٹن کے متنازع کردار نے نہ صرف خطے میں امریکی حمایت کو کمزور کیا ہے بلکہ اسرائیل کے حق میں مسلسل جھکاؤ نے خلیجی عوام میں امریکہ مخالف جذبات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اسی پس منظر میں پاک–سعودیہ معاہدہ صرف ایک دفاعی تعاون نہیں بلکہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ خطے کے ممالک اب اپنے مستقبل کے فیصلوں میں امریکی مداخلت کے خواہاں نہیں ہیں۔ دفاعی ماہرین کے بقول پاک سعودیہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو یکسر بدل سکتا ہے۔ سعودی عرب کا یہ اقدام امریکہ کو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ اب خلیجی ممالک اپنی سلامتی کے فیصلے واشنگٹن کی مرضی کے محتاج نہیں رہے۔” تاہم کچھ ماہرین کے بقول خلیجی ممالک کی امریکہ سے مکمل لاتعلقی ممکن نہیں کیونکہ خلیجی ریاستوں کی معیشت اور عسکری ڈھانچہ اب بھی کسی حد تک واشنگٹن پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاک–سعودیہ معاہدہ خطے میں ایک نئی سفارتی اور دفاعی حقیقت کو جنم دے رہا ہے، جہاں خلیجی ممالک اپنے فیصلے عالمی طاقتوں کے دباؤ سے آزاد ہو کر کرنے کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری جانب امریکی ٹی وی بلوم برگ کے مطابق امریکہ کے عالمی منظرنامے سے پیچھے ہٹنے کے نتیجے میں سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک نئے حفاظتی معاہدوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ معاہدے عالمی سیاست میں ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ محض رسمی دستاویز نہیں بلکہ ایک عالمی پیشرفت کا نقطہ آغاز ہے۔پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ ایک ایسی دنیا کی جانب پہلا ٹھوس قدم ہے جو امریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتی جا رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق ایک لمبے عرصے سے خلیجی ممالک اپنے تحفظ اور سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتےآئے ہیں،تاہم واشنگٹن کی غیر دلچسپی اور اسرائیل کے قطر پر جارحانہ حملے نے اب اس تأثر کو کمزور کر دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق قطر پر اسرائیلی حملے نے تمام خیلیجی ممالک کو اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات سے دو چار کر دیا ہے کیونکہ قطر نہ صرف امریکہ کا اہم اتحادی ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی قطر میں موجود ہے اسے کے ساتھ ساتھ قطر نے حالیہ دنوں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو راغب کرنے کے لیے 400 ملین ڈالر کا ایک طیارہ بطور ایئر فورس ون بھی تحفے میں دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود قطر اسرائیلی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بنا جبکہ اسرائیلی حملوں کے وقت واشنگٹن صرف دس منٹ کی تاخیر سے وارننگ دینے پر اکتفا کرتا رہا۔ اس امریکی رویے نے خطے کے دیگر ممالک کو متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی پس منظر میں سعودی عرب نے پاکستان کا رخ کیا ہے کیونکہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے اور سعودی عرب کے دفاع کو ہر ممکن یقینی بنا سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق سعودی عرب سے پاکستان کا دفاعی معاہدہ تو ابھی ابتدا ہے آنے والے دنوں میں مختلف ممالک اس معاہدے کا حصہ بن سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے بقول پاک سعودی عرب دفاعی معاہدے نے بھارت کی نیندیں اڑا رکھی ہیں کیونکہ وہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات بنا کر پاکستان کو تنہا سمجھ رہا تھاتاہم نئی دہلی اس پالیسی نے اس کے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات کا جنازہ نکال دیا کیونکہ ایک ہی وقت میں ایران، اسرائیل اور سعودی عرب سے تعلقات بڑھانے کی کوشش نے اس کی حیثیت سب کے لیے غیر معتبر بنا دی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی قربت کوئی نئی بات نہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ 2015 میں یمن جنگ کے معاملے پر اختلاف نے دونوں ممالک کے تعلقات کو سرد مہری میں بدل دیا تھا۔ بعد ازاں چین کی سرمایہ کاری نے پاکستان کے لیے نئے مواقع کھولے جبکہ سعودی امداد کی نوعیت قرضوں تک محدود ہو گئی جبکہ دوسری جانب سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا۔ تاہم پاک حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران انڈیا کی زبردست دھلائی کے بعد ریاض نے اسلام آباد کو دوبارہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے جبکہ امریکہ کے اہم اتحادی قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد سعودی عرب نے فوری پاکستان سے دفاعی معاہدہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس پیش رفت سے اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کی بحالی مزید تاخیر کا شکار ہو گئی ہے جبکہ ایران خود کو دبا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بعد سامنے آنے والی تبدیلیاں حقیقت میں ایک "پوسٹ امریکن دنیا” کی جھلک ہیں، جہاں امریکہ کے بغیر ممالک اپنی عارضی سیکیورٹی شراکت داریاں تشکیل دے رہے ہیں۔ امریکی مخالفت سے یہ نئے معاہدے ناپسندیدہ یا غیر مستحکم بھی ہو سکتے ہیں، تاہم اس کا سب سے زیادہ نقصان خود واشنگٹن کو برداشت کرنا پڑے گا، جو اس وقت اپنی کمزور پالیسیوں کے نتائج بھگت رہا ہے۔
