امیرزادوں کے بگڑے بچے کب تک معصوم نوجوانوں کو قتل کرتے رہیں گے ؟

کراچی میں ایک با اثر باپ کے بگڑے ہوئے نشئی سپوت کے ہاتھوں حال ہی میں زندہ جلا دیے جانے والے مصطفی کے قتل نے 2012 میں کراچی کے ہی ایک طاقتور لینڈ لارڈ کے سپوت شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں مارے جانے والے جواں سال شاہ زیب خان کے واقعے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ شاہ زیب کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ اس کی ہمشیرہ سے لینڈ لارڈ کے ملازم نے چھیڑ خانی کی تھی اور شاہ زیب اُس سے جھگڑ پڑا تھا۔
شاہ زیب کا قاتل شاہ رخ جتوئی متعلقہ اداروں کی مدد سے پہلے دبئی فرار کروا دیا گیا اور پھر اس نے رضاکارانہ گرفتاری دے دی۔اخبارات میں تصاویر شائع ہوئیں کہ شاہ رخ جیل میں شہزادوں کی طرح رہ رہا ہے اور پھر یہ شہزادہ 2022 میں باعزت بری ہو گیا۔ سول سوسائٹی حسبِ معمول سر پیٹتی رہ گئی۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ نومبر 2021 میں ایک ماحولیات پرست سماجی کارکن ناظم جوکھیو کے ساتھ بھی ایسا ہی ظلم ہوا تھا کیوں کہ اس نے اپنے سردار جام عبدالکریم بجار ایم این اے اور جام اویس ایم پی اے کے ایک عرب مہمان کی ویڈیو بنائی تھی تاکہ انکی طرف سے کیا جانے والا غیر قانونی شکار ثابت ہو سکے۔ ناظم جوکھیو کو عرب مہمان کی توہین پر سردار کے ڈیرے پر طلب کیا گیا اور پھر اس کی لاش ڈیرے کے باہر ملی۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سندھ کی حکومت ملزمان کے ساتھ کھڑی رہی جس کے بعد ناظم جوکھیو کے خاندان نے اپنے سرداروں کو اللہ کے نام پر معاف کر دیا۔ سول سوسائٹی ایک بار پھر پھڑپھڑاتی رہ گئی۔ گذشتہ اگست میں نتاشا نامی ایک امیر زادی نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کراچی کے علاقے کارساز میں دو راہگیروں کو کچل ڈالا۔ چند ہی ہفتے میں فوت شدگان کے ورثا نے پولیس اور وکیلوں کا مشورہ مانتے ہوئے ملزمہ نتاشا کا فیصلہ اللہ تعالی کی عدالت پر چھوڑ کر دنیاوی عدالت سے اس کی گلو خلاصی کروا دی۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ آج کل ایک اور واردات سوشل میڈیا اور میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ منشیات کے کاروبار سے منسلک ایک با اثر اور جانے پہچانے شخص کے بیٹے ارمغان اور اس کے دوست شیراز نے اپنے ہی ایک جواں سال دوست مصطفی عامر کو اپنے گھر بلا کے شدید زخمی کیا اور پھر مصطفی کی ہی گاڑی کی ڈگی میں اسے ٹھونس کر کراچی سے 24 کلومیٹر پرے بلوچستان کے قصبے حب چوکی میں لے جا کر ارمغان نے سکہ اچھالا کہ ہیڈ آیا تو نہیں ماروں گا۔ ٹیل آیا تو مار ڈالوں گا۔
اور پھر مصطفی عامر کو اس کی گاڑی سمیت زندہ ہی جلا ڈالا۔ ملزموں نے پولیس کو اعترافی بیان دیا مگر جج نے انھیں پولیس ریمانڈ میں دینے کے بجائے جوڈیشل کسٹڈی میں جیل بھیج دیا۔ جب عوامی شور اٹھا تو ہائی کورٹ کے دو ججوں نے تحقیقات کے بعد اس جج سے انسداد دہشت گردی کراچی کی عدالت کے انتظامی جج کی ذمہ داریاں واپس لے لیں۔
وسعت اللہ بتاتے ہیں کہ پولیس نے مصطفی عامر کے لاپتہ ہونے کے تین ہفتے بعد کیس میں تب دلچسپی لینا شروع کی جب سوشل میڈیا نے اس واردات کو اٹھایا۔ اسکے بعد ملزموں کے بیانات بھی ہو گئے، مقتول عامر کا موبائل فون بھی مل گیا، اور فرانزک کا انتظام بھی ہو گیا۔ مقتول مصطفی کی قبر کشائی کر کے اس کی بچی کھچی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کر لیا گیا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ کمزور ثبوتوں کی بنا پر یہ قتل کیس بھی کسی نہ کسی مرحلے پر داخلِ دفتر ہو جائے گا۔ فیصلہ جو ہو سو ہو مگر کسی عام شہری کو یقین نہیں ہے کہ با اثر باپ کے بیٹے کو سزا دینے کی نوبت آئے گی۔
وسعت اللہ کہتے ہیں کہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے پہلے قتل کو اس لیے نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جان و مال کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے عمرانی وعدے پر جو پہلی ریاست قائم ہوئی تب سے اب تک جتنے بھی کروڑوں بہیمانہ جرائم ہوئے ان کا خون ریاست کی گردن پر ہے۔ میں یہاں قوم پرستی، نظریے، رنگ و نسل کی برتری کے نام پر ہونے والے جرائم کی تفصیلی میں نہیں پڑنا چاہ رہا۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جیسے جیسے ہم پہلے سے زیادہ مہذب ہونے کے زعم میں مبتلا کیے گئے ویسے ویسے ہمارا وحشی پن بڑھتا چلا گیا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ریاست کا ادارہ فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ شرمندگی، خجالت، پشیمانی، محاسبہ اور انصاف کے شاید کبھی کوئی معنی ہوتے ہوں، یہ معنی بھی عرصہ ہوا قتل ہو چکے ہیں۔
وسعت اللہ کہتے ہیں کہ باقی دنیا میں جو گل کھلائے جا رہے ہیں اگر ہم ان سے صرفِ نظر کر کے اپنے اردگرد ہی بغور دیکھنا شروع کریں تو جان لیں گے کہ اب کسی بات و واردات پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ جان و مال، عزت، قانون، اختیار و بے اختیاری، ان سب کی اوقات لاوارث کتابی لاشوں کے برابر بھی نہیں رہی۔ ڈیڑھ سے دو سو افراد کا ہجوم جب چاہے اور جتنی دیر چاہے اس ملک کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے شہر کی روزمرہ زندگی یرغمال بنانے کے لیے کافی ہے۔ میں کسی بھی شخص پر توہینِ مذہب یا نظریاتی توہین کا الزام لگا کے سنگسار کروا سکتا ہوں۔بستی کیا انسانوں کو زندہ جلوا سکتا ہوں۔کسی کی کیا مجال کہ میرا بال بھی بیکا کر سکے ۔اگر مجھے ہجوم اکٹھا کر کے اسے گرمانے کا فن آتا ہے تو میں خود ایک ریاست ہوں۔
وسعت اللہ کے بقول آپ اپنے گھر میں ملازم کسی بھی کمسن لاوارث بچے کو صرف ایک چاکلیٹ چرانے کے شبہے میں اس کی ہڈیاں توڑ کے پھینک سکتے ہیں۔کسی راہ گیر پر بھی چوری یا ڈاکے کا شبہہ ہو جائے تو درجن بھر ہم خیال لوگ اکھٹا کر کے مشتبہ کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے درخت سے باندھ کے یا لٹکا کے پھانسی دے سکتے ہیں۔کم سن بچوں کو اغوا کر کے ان کی عریاں ویڈیوز بنا کے بلیک میل کر سکتے ہیں یا فروخت کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ کسی بھی سڑک پر زنجیر لگا کے جگا ٹیکس وصول کر سکتے ہیں۔کسی بھی زمین پر قبضہ کر سکتے ہیں۔کسی بھی موٹر سائیکل سوار یا پیدل کو گاڑی یا ٹرک تلے کچل سکتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد اگر آپ پولیس یا انصاف نہیں خرید سکتے تو کم از کم یہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ مقتول یا ریپ زدہ کے اپنے سے کمزور و کمتر خاندان کو دھونس، دھمکی، ترغیب، لالچ کے دباؤ میں لا کر باز پرس سے چھوٹ جائیں۔
اگر آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر تو آپ کو اپنے کیے کی مروجہ قانونی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ مگر بقول وسعت اللہ خان، اچھی خبر یہ ہے کہ جناح کے پاکستان میں بہیمانہ جرائم میں بھی قرار واقعی سزا ملنے اور اسے پوری طرح بھگتوانے کا تناسب پانچ فیصد سے زیادہ نہیں۔ یہ موجودہ نظام کی خرابی قطعاً نہیں بلکہ یہی حسنِ انتظام ہے۔ اگر آپ قانون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی پلکیں نہیں جھکا سکتے تو پھر یہی قانون آپ جیسے بے قدرت لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گا۔ آپ کے پاس کالا ہے یا سفید مگر بے پناہ پیسہ ہے تو آپ پر کوئی ایرا غیرا انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ آپ کے کندھے پر کوئی خاکی یا سفید دیدہ و نادیدہ ہاتھ ہے تو آپ کو بخشش ہے۔ آپ دلال پیشہ یا بے پیندے کے لوٹے یا تھالی کے بینگن ہیں تو آپ محفوظ ہیں۔ آپ کے دوست ممالک کے ساتھ کنکشن یا پٹی فٹنگ ہے تو بھی آپ کو امان ہے۔
امریکہ مخالف عمران کی رہائی کے لئےامریکی لابنگ فرمزمیدان میں
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اگر یہاں مکمل آمریت یا فسطائیت یا اصلی بادشاہت ہوتی تو صبر آ جاتا۔ مگر جو بھی کچھ نافذ ہے ادھورا ہے۔جو جتنا بااختیار ہو سکتا ہے اس کا بس نہیں چلتا کہ اگر بڑا نہیں تو چھوٹا موٹا خدا ضرور بن جائے۔ مگر اس خدائی سے کام کیا لینا ہے۔کوئی نہیں جانتا۔ جس لمحے منصف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کی اختیاراتی تھالی میں چھید کرنے کے کھیل سے اکتا جائیں گے اور ملزم کا قد کاٹھ دیکھ کر فیصلہ لکھنے کے بجائے قانون کے مطابق فیصلہ سنانے کا خطرہ مول لینے لگیں گے، اسی لمحے سے اس ملک کے خاص و عام قانون شکن عناصر انسان کے بچے بننا شروع کر دیں گے۔ مگر مستقبل قریب میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔