بشریٰ بی بی کا احتجاج سے فرار نہ ہونے کا جھوٹ کیسے بے نقاب ہوا؟
26 نومبر کو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کی ناکامی کی ذمہ دار قرار دی جانے والی بشری بی بی نے اب سارا مدعا پارٹی قیادت اور ورکرز پر ڈالتے ہوئے یہ دعوی کر دیا ہے کہ انہیں رات ساڑھے 12بجے مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ بھاگنے والی نہیں اور دھرنے سے فرار کا جھوٹا الزام عائد کر کے ان کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تاہم بشری بی بی بھول گئیں کہ 26 نومبر کی رات ڈی چوک میں پولیس ایکشن شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے وہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ فرار ہوئیں تھیں۔ ان کے فرار کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ رات گئے اپنی گاڑی چھوڑ کر علی امین گنڈا پور کی سرکاری گاڑی میں منتقل ہو رہی ہیں جو انہیں لے کر مانسہرہ نکل گئے تھے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون بشری بی بی کی گاڑی سے تکیے سمیت ان کا دیگر سامان علی امین گنڈاپور کی گاڑی میں منتقل کر رہی ہیں جس کے بعد دونوں اسلام اباد سے فرار ہو گے۔
بشری بی بی نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہیں 26 نومبر کی رات ساڑھے بارہ بجے ڈی چوک پر اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو سے ان کا یہ جھوٹ بھی پکڑا جاتا ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گنڈاپور کے ساتھ اسلام اباد سے بھاگ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب بشری بی بی اور گنڈا پور ڈی چوک سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو پارٹی کے کچھ ورکرز ان کی گاڑی کے اگے لیٹ جاتے ہیں اور انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم گنڈاپور زبردستی اپنی گاڑی نکال کر مانسہرہ کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔
بعد ازاں علی امین اور بشری بی بی مانسہرہ سے پشاور چلے گئے تھے جس کے بعد سے عمران خان کی تیسری اہلیہ نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن ان کی وٹو نامی بہین سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈالتے ہوئے مسلسل یہ دعوی کر رہی تھیں کہ بشری کو اسلام اباد سے اغوا کر کے مانسہرہ لے جایا گیا۔ بشری بی بی کی بہن کے دعوے کے مطابق علی امین گنڈا پور نے انہیں اغوا کیا تھا ورنہ وہ اپنے ورکرز کو اکیلا چھوڑ کر بھاگنے کے حق میں نہیں تھیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں صاف نظر اتا ہے کہ بشری نے اپنی مرضی سے گنڈا پور کے ساتھ بھاگنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ بشریٰ بی بی 26 نومبر کو ڈی چوک سے فرار ہونے کے بعد 6 دسمبر کو اسلام آباد دھرنے میں جاں بحق ہونے والے پارٹئ ورکر تاج الدین کے گھر گئیں جہاں انہوں نے ورثا سے تعزیت کی اور انہیں ایک کروڑ کا چیک دیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بشریٰ بی بی نے کہا کہ میں 26 نومبر کو مظاہرین پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں شہادتوں کی وجہ سے تکلیف میں تھی اس لیے پہلے سامنے نہ آ سکی، اپنے پہلے شوہر خاور مانیکا اور پانچ بچوں کو پاکپتن میں چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ بنی گالا نکل جانے والی بشری عرف پنکی ہیرنی نے یہ دعوی بھی کیا کہ میں کوئی بھاگنے والی عورت نہیں ہوں، دراصل مجھے ڈی چوک پر اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا، اب مجھے سمجھ نہیں آرہا لیلہ لوگ یہ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں کہ میں ڈی چوک سے بھاگ گئی تھی۔
عمران خان کی تیسری اہلیہ نے کہا کہ میں خان کے لیے نکلنے والوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، لیکن اس رات کسی کو نہیں پتا تھا کہ میں کدھر ہوں اور میری گاڑی کون سی ہے، ڈی چوک پر رات ساڑھے بارہ بجے میں اپنی گاڑی میں اکیلی تھی، اور سکیورٹی فورسز والے ڈی چوک زبردستی خالی کرارہے تھے۔بشریٰ کا کہنا تھا کہ میں وہاں سے نہیں ہٹی تھی کیونکہ خان نے ہٹنے کا نہیں کہا تھا، میں نے سب کو کہا تھا مجھے اکیلا نہیں چھوڑنا، میں نے صرف آپ کو بتانا ہے کہ میں وہاں اکیلی تھی، مجھے سب نے چھوڑ دیا تھا، بہت سے لوگ گواہ ہیں، جو لوگ روڈ خالی کرا رہے تھے وہ بھی گواہ ہیں۔
اس کے بعد بشری بی بی نے یہ دعوی بھی کر دیا کہ جب میں نے ڈی چوک سے بھاگنے سے انکار کیا تو سیدھی میری گاڑی پر فائرنگ ہوئی، انہوں نے کہا کہ پٹھانوں نے ہمیشہ غیرت مندی کا ثبوت دیا ہے اور بانی پی ٹی آئی نے مجھے کہا تھا کہ شہدا کے گھرجانا ہے، کیونکہ ورکرز بانی کے نام پرشہید ہوئے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ 26 نومبر کی رات دھرنے سے فرار ہونے کے بعد بشری بی بی کی نہ تو عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے اور نہ ہی فون پر رابطہ ہو پایا ہے، وہ اپنے خلاف درج مقدمات میں بھی عدالت میں اس لیے پیش نہیں ہو رہیں کہ بیشتر کیسز اسلام آباد میں درج ہیں اور وہ گرفتاری کے خوف سے پشاور سے باہر ہی نہیں نکلیں۔