پاکستان نیوکلیئر طاقت نہ ہوتا تو امریکہ اسکے ساتھ کیا سلوک کرتا؟

آج اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایرانی سائنس دان بھی نیوکلیئر بم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہوتے تو اسرائیل کبھی ایران پر حملہ کرنے کی سوچتا بھی نہیں۔ اگر پاکستان آج امریکی عتاب سے بچا ہوا ہے تو اس کی واحد وجہ اس کی نیوکلیئر طاقت ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو امریکی ایما پر ایک فوجی جرنیل نے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
معروف لکھاری کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج پاکستانی نیوکلیئر بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت یاد آ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر اے کیو خان کو ہالینڈ سے واپس لائے اور انکی مدد سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کا راستہ دکھایا۔ بھٹو ایک دور اندیش سیاستدان تھے جنہوں نے پاکستان کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سب سے پہلے فرانس سے ایک ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کا معاہدہ کیا تھا، لیکن پھر امریکی پریشر پر فرانس نے معاہدہ منسوخ کر دیا۔
ایاز میر کہتے ہیں کہ بھٹو کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کا سلسلہ چل رہا تھا تو دوسری جانب انہوں نے درپردہ گہرے اندھیروں میں اے کیو خان سے ایٹمی نسخے پر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری میں کام شروع کروا دیا۔ اے کیو خان نے سینٹری فیوج کے ذریعے یورینیم کو بھاری کرنے کی ترکیب تیار کی تھی۔ دنیا کی توجہ فرانس کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر رہی لیکن دوسری جانب کہوٹہ میں سینٹری فیوج زوروں سے چلنے لگے۔ بھٹو ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھ گیا لیکن اس نے دنیا کو کہوٹہ پراجیکٹ کی کانوں کان بھی خبر نہ ہونے دی۔ یہ بھی ایک انوکھی بات ہے کہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے بھٹو کو ایک پاکستانی آرمی چیف نے امریکی خواہش پر پھانسی پر چڑھا دیا لیکن وہ ایٹمی پروگرام کو روکنے کی جرات نہ کر پایا۔ تاہم پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنانے میں بھٹو کے بعد اگر کسی کا کردار تھا تو وہ ڈاکٹر اے کیو خان ہی تھے کیونکہ وہ نہ ہوتے تو شاید ہم بھی ایرانی سائنس دانوں کی طرح طغیانی میں غوطے کھاتے رہتے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ انہیں یہ تمام باتیں ایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں یاد آ رہی ہیں۔ ہمارے ایرانی بھائی دہائیوں سے ایٹم کے راز افشاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ایٹمی قوت اُن کے ہاتھ ابھی تک نہیں آئی۔ ایران نے اپنا نیوکلیئر پروگرام محفوظ رکھنے کی خاطر اپنی ایٹمی تنصیبات زیر زمین جا کر تعمیر کیں۔ ایران نے نطنز شہر میں اپنے مرکزی ایٹمی پلانٹ کی زیر زمین تعمیر میں جو سیمنٹ استعمال کیا ہے وہ بم حملے سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران نے دعوی کیا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام حملوں کے باوجود محفوظ ہے لیکن اس کے کم از کم 9 اہم ترین سائنسدان اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر بتاتے ہیں کہ ایرانی سائنسدانووں نے بھی نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرنے کے لیے اے کیو خان کا بتایا ہوا راستہ چنا اور سینٹری فیوج کا استعمال کیا۔ اُنہوں نے بہت حد تک یورنییم کو افزودہ بھی کر لیا لیکن امریکہ کی جانب سے ایران پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے وہ ابھی بم نہیں بنا پایا تھا۔ امریکہ کے پاس انٹیلیجنس انفارمیشن تھی کہ ایران نیوکلیئر پاور بننے کے قریب پہنچ چکا ہے چنانچہ اس پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایرانی قیادت نے ہمیشہ کہا کہ وہ ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہتے لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور اس میں خلیج فارس کی واحد نیوکلیئر طاقت بننے کی صلاحیت بھی ہے۔ ایران بخوبی جانتا ہے کہ اسرائیل کے پاس بھاری ایٹمی ذخیرہ ہے لہٰذا خود کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے نیوکلیئر طاقت بننا ضروری ہے۔ اسرائیل نے بھی اسی لیے ایران پر حملہ کیا ہے کہ اسے نیوکلیئر طاقت بننے سے روکا جا سکے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ بھٹو اور قدیر خان کے طفیل پاکستان نے اچھے وقتوں میں نیوکلیئر پاور بننے کا فیصلہ کر لیا جس کے فضائل آج محسوس ہوتے ہیں، خصوصا جب حال ہی میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نیوکلیئر طاقت نہ ہوتا تو انڈیا نے اسے کچا چبا جانا تھا۔ ہم اپنے ملک کی کمزوریاں اور کوتاہیاں گننے بیٹھتے ہیں تو بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ بہت سی چیزوں میں ہم پرلے درجے کے نکمے بھی ہیں لیکن اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کی رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود ایٹم بم تو ہم نے بنا ہی لیا اور وہ بھی اپنے کشکول کے سر پر کیونکہ ہمارے پاس تو دنیا کی دیگر نیوکلیئر طاقتوں جیسے کوئی تیل یا گیس کے ذخائر نہیں۔ جیسے مانگے تانگے سے ہم اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے وسائل نکالتے رہے اور آج سکون سے بیٹھے ہیں۔
ایاز امیر کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنا کر ایٹمی ٹیسٹ کر لیا ہوتا تو اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی اُس پر حملہ کرنے کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اے کیو خان پر الزام ہے کہ اُنہوں نے ایران اور کوریا کو ایٹمی راز بانٹے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے خود ایک مرتبہ ڈاکٹر قدیر کو اس حوالے سے یہ کہتے سنا کہ اسلامی دنیا کی بقا اسی میں ہے کہ ایک دو ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ تب مجھے ایسی باتیں بکواس لگتی تھیں لہٰذا مجھے اُنکی یہ بات بھی اچھی نہیں لگتی تھی کہ میں نے پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ پاکستان کے دیگر مسائل دیکھ کر یہ بات بڑی کھوکھلی لگتی تھی۔ لیکن مسلم ممالک کے ساتھ پچھلے بیس سالوں میں جو کچھ ہوا ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو اُن کی بات اب سمجھ آتی ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ بیچارے کرنل قذافی کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ اے کیو خان پر بہت سے الزامات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے لیبیا کے ایٹمی پروگرام میں مدد کی تھی اور اسے سینٹری فیوجز کے بلیو پرنٹ مہیا کیے تھے۔ لیکن بعد میں امریکی دباؤ کے زیر اثر کرنل قذافی نے اپنا ایٹمی پروگرام ترک کر دیا۔ مغربی ممالک نے بغلیں تو بجائیں لیکن اُنہیں معاف نہ کیا۔ جسے عرب بہار کہتے ہیں وہ شروع ہوئی تو دیگر عرب ممالک کی طرح لیبیا میں بھی تھوڑی گڑبڑ شروع ہوئی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے برطانیہ اور فرانس نے امریکی معاونت سے لیبیا پر ہوائی حملے شروع کر دیے جس سے باغیوں نے زور پکڑا اور کرنل قذافی کے دن تمام ہوئے۔ اُن کے قتل اور آخری لمحات کی تصویریں یوٹیوب پر موجود ہیں۔ دیکھیں تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ اگر کرنل قذافی ایٹمی پروگرام مکمل کر لیتے تو مغرب کو لیبیا پر حملے کی جرأت نہ ہوتی۔ لیبیا سے پہلے عراق کو تباہ کیا گیا اور اب شام کو بھی بالکل بے ضرر کر دیا گیا ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور اسرائیل ہر طرف دندناتا پھر رہا ہے۔
ایاز امیر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک نے یہ اصول گلے سے لگا لیا ہے کہ عافیت امریکہ کی تابعداری میں ہے لہذا ہمسائے میں کسی پر برا وقت آئے تو انکھیں بند کر لی جائیں۔ لیکن پھر بھی ایران نے اتنی جرات اور ہمت تو دکھائی ہے کہ اسرائیل پر جوابی حملے کر رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ایران کے پاس بھی نیوکلیئر طاقت ہوتی تو آج کیا صورت حال ہوتی؟