کیا اسٹیبلشمنٹ دوبارہ عمران خان پر اعتماد کر سکتی ہے؟

سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان سعودی عرب کے بارے میں شیر افضل مروت کے بیان سے اتفاق نہیں کررہے مگر فوجی قیادت کیخلاف اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، پارٹی رہنماؤں کی اکثریت عمران خان سے اتفاق کرتی ہے، حامد میر کے مطابق کچھ لوگ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
دوسری طرف ناقدین کے مطابق عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین سیز فائر کی کوشش تو کی جا رہی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سانحہ 9 مئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ اعتماد کرنے پر تیار ہو گی؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کو پھر گود لینا اور اقتدار کے ایوان تک پہنچانا ممکن ہے؟ عمران خان کی بے بنیاد الزام تراشیوں کے دوران مذاکراتی عمل کیسے شروع ہو سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ان سوالوں کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔
دوسری جانب سینئیر صحافی انصار عباسی کا اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہنا ہے کہ’’پاکستان کے خیر خواہوں‘‘ کا ایک گروپ نہ صرف عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے متحد ہو رہا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں سے کہہ رہا ہے کہ عوام اور ملک کی بہتری کیلئے ایک ساتھ مل بیٹھیں۔ اس گروپ میں کچھ سینئر ’’غیر جانبدار‘‘ سیاست دان اور ایک ریٹائرڈ جرنیل شامل ہے۔ ان میں سے ایک نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اب تک کم از کم تین ’’پاکستان کے خیر خواہ‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں،ان خیر خواہوں میں آ ے والوں دنوں میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں، تاکہ قومی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ انصار عباسی کے مطابق ان تین خیر خواہوں میں سے دو سابق وفاقی وزراء ہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جرنیل ہے۔ تینوں جانے پہچانے چہرے ہیں۔ اس مرحلے پر پاکستان کے یہ خیر خواہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے خواہشمند نہیں لیکن وہ اس معاملے پر بات کر رہے ہیں کہ فوج اور سیاست میں اپنے رابطوں کو کس طرح استعمال کر کے دشمنی اور نفرت کی سیاست کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس گروپ کیلئے سب سے بڑی پریشانی عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کو ختم کرنا ہے۔ اس خلیج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازع ہے، پی ٹی آئی اور حکمران اتحادی جماعتیں بھی آپس میں بات نہیں کرتیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججز کے خط کو دیکھیں تو عدلیہ میں بھی تقسیم سامنے آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ حالات ملک کیلئے اچھے نہیں جس میں سیاسی استحکام کے ساتھ تمام اداروں کے احترام کی بھی ضرورت ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’جیسے ہی ہم اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دیں گے، ہم میڈیا کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اشارتاً کہا کہ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ حالیہ مہینوں کے دوران ٹاک شوز میں پاکستان کے ان خیر خواہوں کے خیالات سن کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی اصل توجہ ممکنہ طور پر عمران خان، پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کو دور کرنا ہو سکتی ہے۔ انصار عباسی کھ مطابق نومبر 2022ء سے عمران خان، پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما مایوس کن انداز سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے براہِ راست رابطے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کچھ بالواسطہ رابطوں کے بارے میں غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی دونوں کیلئے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔ انصار عباسی کا مزید کہنا ہے کہ چند ہفتے قبل سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے دعویٰ کیا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے رابطہ کیا تھا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کے علم میں ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے بالواسطہ رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو پیغام دیا گیا کہ وہ تسلیم کریں کہ 9؍ مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی انہوں نے کی تھی، اس کیلئے وہ معافی مانگیں اور یقین دہانی کرائیں کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ جنرل (ر) لودھی نے مزید کہا کہ عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے 9؍ مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی نہیں کی، عمران خان نے آتشزدگی اور غنڈہ گردی میں ملوث افراد کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ان واقعات میں ملوث افراد کو پی ٹی آئی سے نکالنے کو یقینی بنائیں گے تاہم اس معاملے پر مزید پیشرفت نہ ہو سکی۔