عمران کی فوج سے مذاکرات کی خواہش پراپوزیشن جماعتیں ناراض

پی ٹی آئی کی سیاست مزاحمت اور احتجاجی طرز عمل سے نکل کر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے گرد گھومتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات بارے دوہری مشکل میں گھری دکھائی دیتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی خواہش کے باوجود اسٹیبلشمنٹ یوتھیے رہنماؤں سے بات کرنے سے انکاری ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی قیادت کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے مشاورت نہ کرنے پر تحریک انصاف سے راہیں جداکرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کے باوجود پی ٹی آئی کے ذمہ داران خصوصاً اعظم سواتی اس طرح کے اشارے دیتے نظر آ رہے ہیں کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں سے مذاکرات چل نکلے ہیں۔ جس کے اثرات جلد سامنے آئیں گے اور جلد عمران خان جیل سے باہر آنے والے ہیں۔ تاہم اعظم سواتی مذاکراتی عمل کے حوالے جس عسکری قیادت کی جانب اشارے کر رہے ہیں وہ ایسے دعوؤں کی تردید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اسٹیبلسمنٹ سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کی ایسی تمام کوششوں کو اعظم سواتی کا ذاتی عمل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس کا جماعتی سطح سے تعلق نہیں۔دوسری جانب سابق صدر عارف علوی مذاکرات کے حامی تو دکھائی دے رہے ہیں مگر ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر آئندہ انتخابات کے حوالہ سے مذاکرات ہوتے ہیں تو وہ ایسے مذاکرات کا خیر مقدم کریں گے ورنہ وہ ایسی کسی بات چیت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتاہے کہ اچانک مزاحمتی سیاست کی علمبردار پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر اصرار اور تکرار کیوں کرنے لگی؟ کیا اسٹیبلشمنٹ سے مزاکرات کا ڈھول پیٹنے والوں کو اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی حمایت اور تائید حاصل ہے؟ کیا واقعی پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور مذاکرات چل رہے ہیں؟ ایسے کسی بیک ڈور رابطوں اور مذاکرات کا مستقبل کیا ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کسی پس پردہ مذاکرات یا ڈائیلاگ پر تیار ہو گی اور مذاکرات ہوں گے تو کس ایجنڈا پر ہونگے ، کیا بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی بھی اس ایجنڈا کا حصہ ہوگی؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ جہاں تک پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کے مذاکرات یا امکانات کا تعلق ہے تو سیاسی عمل میں یہ سلسلہ چلتا نظر آتا ہے مگر یہ مذاکراتی عمل ہمیشہ حکومتوں اور اپوزیشن کے درمیان کسی خاص ایجنڈے پر ہوتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں جب پی ٹی آئی حکومت اور خصوصاً اسٹیبلشمنٹ پر اثر انداز ہونے کے ممکنہ تمام آپشنز بروئے کار لا چکی ہے اور اسے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا تو اب اس نے اپنی احتجاجی روش سے صرف نظر برتتے ہوئے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ سلمان غنی کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں مذاکرات کے حوالے سے کوئی بھی حتمی اختیار صرف اور صرف بانی پی ٹی آئی عمران خان کے پاس ہے اور حکومت سے اترنے کے بعد سے اب تک وہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی گردان کرتے اور انہیں اس حوالہ سے پکارتے نظر آتے ہیں لیکن ان کی اس مسلسل کوشش کے باوجود انہیں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے حوالہ سے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کو پکارتے بھی نظر آتے اور للکارتے بھی دکھائی دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ عمران خان دراصل اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے اور اپنی باتیں منوانے کے ایجنڈے پر سرگرم عمل ہیں۔
سلمان غنی کے بقول بانی پی ٹی آئی عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنےکی اس پالیسی اور طرز عمل نے مذاکرات کو یقینی بنانے کی بجائے خود اسٹیبلشمنٹ کو اس حوالے سے متنفر کر دیا۔سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ اسے اس مرحلہ پر پی ٹی آئی یا عمران خان سے مذاکرات کا رسک نہیں لینا چاہیے۔ اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے یہ واضح کر رکھا ہے کہ وہ کسی سیاسی عمل۔کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ مذاکرات کے لئے حکومت موجود ہے اپوزیشن چاہے تو ان سے بات کر سکتی ہے۔ سلمان غنی کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی شروع سے ہی ریاستی اداروں سے اچھے روابط اور ڈائیلاگ کے حامی رہے ہیں ۔تاہم جہاں تک سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے مذاکراتی عمل کی تائید کی بات ہے تو وہ اس مذاکراتی عمل کو آنے والے انتخابات سے تعبیر کرتے نظر آتے ہیں مطلب یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے اگر بات چیت ہوتی ہے تو یہ آنے والے انتخابی عمل کی حیثیت پر ہو گی تاکہ بامقصد مذاکرات کے ذریعے جہاں انتخابی عمل شفاف بنایا جا سکے وہیں ان انتخابات کے نتیجے میں ایک حقیقی طور پرمنتخب حکومت وجود میں آ سکے۔
سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ دہشت گردی کے خلاف بلائی جانے والی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت یقینی بناتی تو اس عمل سے ان کے اسٹیبلشمنٹ سے نہ صرف تعلقات کار بحال ہو جاتے بلکہ ریاستی مفادات میں ان کا سیاسی کردار اجاگر ہوتا تاہم نہ جانے کس نے پی ٹی آئی قیادت کو آخری وقت میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔ اس عمل کا خود پی ٹی آئی کو بہت نقصان برداشٹ کرنا پڑا اور آگے مزید نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ سلمان غنی کے مطابق موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور خصوصاً اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بے قراری کا اسے کوئی فائدہ ملتا نظر نہیں آتا تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے والی اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے کردار سے سخت نالاں ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ جو حکومت خود اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات اور تعلقات کے لئے اتنی بے قرار ہے وہ ہمیں سول سپرمیسی اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کسی احتجاج کے لئے کیسے آمادہ کر پائے گی۔ یعنی پی ٹی آئی کی مذاکراتی حکمت عملی بھی اس کے گلے پڑتی دکھائی دے رہی ہے جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے انکاری ہے وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی کی صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش نے جے یو آئی سمیت تحریک انصاف کی اتحادی اپوزیشن جماعتوں کو ناراض کر دیا ہے۔ یعنی
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے