عدالتی فیصلہ: حکومتی چیلنجز میں کمی، عمران کی مشکلات میں اضافہ

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ آنے سے نہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف کی رہی سہی امیدیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ شہباز شریف کی حکومت کو درپیش سیاسی چیلنجز بھی تقریبا ختم ہوتے نظر آتے ہیں۔

یاد رہے کہ الیکشن 2024 میں پی ٹی آئی بغیر بلے کے میدان میں اتری تھی، اسے اچھی خاصی تعداد میں نشستیں حاصل ہوئیں لیکن اس کے بعد مخصوص نشستوں کا معاملہ پھنس گیا۔ پہلے الیکشن کمیشن نے، پھر پشاور ہائیکورٹ نے، اسکے بعد سپریم کورٹ نے اور بالآخر آئینی بینچ نے اس کیس کا حتمی فیصلہ سنایا ہے۔ اس دوران کبھی تحریک انصاف کے خلاف تو کبھی عمران خان کے حق میں فیصلے آتے رہے۔

تاہم اپنے حتمی فیصلے میں آئینی بینچ نے قرار دیا کہ جو سیاسی جماعت پارلیمینٹ میں موجود ہی نہیں اسے مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں۔  حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشتسیں تحریک انصاف کی بجائے دیگر جماعتوں کو الاٹ کی جائیں گی۔ یوں تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محرومی نے حکمراں اتحاد کے ہاتھ مزید مضبوط کر دیے ہیں۔ 12 رکنی آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ مخصوص نشستیں نہ تحریک انصاف کو مل سکتی ہیں اور نہ ہی سنی اتحاد کونسل کو۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بینچ نے سات پانچ کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 12 جولائی 2024 کے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں قرار دیا گیا گیا تھا کہ الیکشن 2024 کے نتیجے میں مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دی جائیں۔

مخصوص نشستوں کے کیس کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد اب قومی اسمبلی کی 22 اور بلوچستان کے علاوہ باقی تین صوبائی اسمبلیوں کی 55 مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو ملنے جا رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 22 نشستوں میں سے 14 حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے حصے میں جا رہی ہیں۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ کی موجودہ 110 نشستیں بڑھ کر 124 ہونے جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں پانچ نشستیں آئیں گی اور اس کی مجموعی نشستیں 70 سے بڑھ کر 75 ہو جائیں گی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علماء اسلام کی مجموعی نشستیں 8 سے بڑھ کر 11 ہو گئی ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے 224 نشستیں درکار ہوتی ہیں، چنانچہ اس فیصلے کے بعد 214 نشستوں والے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت ملی جائے گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کی 21 اور اقلیتوں کی چار مخصوص نشستیں بحال ہوئی ہیں، جس کے بعد جے یو آئی کو دس، ن لیگ کو سات، پیپلز پارٹی کو سات اور اے این پی کو ایک مخصوص نشست ملے گی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 24 مخصوص نشستیں اور اقلیتوں کی تین نشستیں بحال ہو گئیں۔ ان میں ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو دو جبکہ مسلم لیگ کو ایک نشست ملے گی۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کی دو اور اقلیتوں کی ایک نشست بحال ہوئی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست ملے گی۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کے بعد آیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی تھی، تاہم الیکشن کمیشن نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی پارلیمانی جماعت نہیں اور اسے مخصوص نشستوں کا حق حاصل نہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا تاہم 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ کے آٹھ ججز نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا تھا، جس پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 266 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ 60 خواتین اور 10 غیرمسلم پاکستانیوں کو مخصوص نشستوں پر منتخب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صوبوں میں سے پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 371 ہے جب میں سے 297 پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔

Back to top button