ارشد شریف کے قتل سے سلمان اقبال کا کیا تعلق ہے؟


معروف یوٹیوبر اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق کینیا سے جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں ان سے لگتا ہے کہ اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال کا اس واردات سے گہرا تعلق ہے۔ بلال غوری نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ ارشد شریف کو کینیا بھجوانے میں سلمان اقبال کا بنیادی کردار تھا حالانکہ بظاہر ارشد کو اے آر وائی سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کے ارشد شریف کے سفر کے تمام اخراجات سلمان اقبال نے اٹھائے ہوئے تھے اور کینیا میں بھی وہ جن لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے وہ سلمان اقبال کے ہی تعلق دار ہیں، یاد رہے کہ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کرنے والے وقار احمد اور خرم احمد دراصل سلمان اقبال کا بزنس چلاتے ہیں۔

بلال غوری نے بتایا کہ ارشد شریف کو دبئی سے کینیا سلمان اقبال نے بھجوایا۔ سلمان نے ارشد سے کہا کہ آپ دبئی میں محفوظ نہیں ہیں لہٰذا کینیا میں میرے دوست کے پاس چلے جائیں، وہ آپ کی میزبانی کریں گے۔ کینیا میں ارشد شریف کو وقار احمد نامی شخص نے نیروبی ائیرپورٹ سے ریسیو کیا اور پھر اپنے گھر لے گئے۔ بلال غوری کے مطابق ارشد شریف نے اپنا کینیا پہنچنا بہت خفیہ رکھا ہوا تھا۔ انکے کینیا جانے کا علم صرف چار سے پانچ لوگوں کو تھا جن میں ایک سلمان اقبال ہیں اور ایک اے آر وائے کے پروڈیوسر عدیل راجہ ہیں۔ ارشد گذشتہ تین ماہ سے کینیا میں تھے مگر انہوں نے اپنی لوکیشن بارے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا تھا۔ ان کے گھر والوں کو یہی پتہ تھا کہ وہ افریقہ کے کسی ملک میں موجود ہیں۔

بلال غوری نے بتایا کہ ارشد شریف کا قتل کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ انہیں باقاعدہ گھیر کر کینیا بھیج کر مارا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سلمان اقبال، وقار احمد اور خرم احمد کو شامل تفتیش کر کے ساری گتھی سلجھائی جا سکتی ہے۔ اس قتل کا کھرا ان تینوں کی طرف جا رہا ہے لیکن اگر انہیں تفتیش میں شامل نہیں کیا جاتا تو ارشد شریف کے اصل قاتلوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا۔ بلال غوری نے بتایا کہ وقار احمد کا تعلق کراچی سے ہے۔ یہ تین بھائی ہیں جو 90 کی دہائی میں کینیا منتقل ہوئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت مالدار اور بااثر ہو گئے۔ یہ لوگ کینیا میں حکومتی ٹھیکے دار ہیں اور اسلحہ سمیت سپلائی کے مختلف آرڈرز لیتے ہیں۔ جس علاقے میں ارشد کے قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، اس میں وقار کا ایک انٹرٹینمنٹ کمپلیکس بھی واقع ہے جس میں ایک شوٹنگ رینج بھی موجود ہے جہاں کینیا کے فوجی اہلکاروں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اپنے قتل کے وقت ارشد شریف خرم نامی جس آدمی کے ساتھ سفر کر رہے تھے وہ وقار احمد کا چھوٹا بھائی ہے۔ وقار احمد کا انٹرٹینمنٹ کمپلیکس اور فائرنگ رینج ایک ویران علاقہ میں واقع ہے جہاں زیادہ تر قبائلی لوگ رہائش پذیر ہیں۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے ارشد شریف کے ساتھ کیا ہوا، اس معاملے میں دو مؤقف سامنے آئے ہیں۔ ایک پولیس کا ہے اور ایک خرم احمد کا۔

بلال غوری کے مطابق واقعے کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر سیدہ ثقلین نے وقار کو بلایا اور ان سے سوال جواب ہوئے۔ ملاقات میں وقار کا کہنا تھا کہ جب انکا چھوٹا بھائی ارشد شریف کو واپس لا رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک مقام پر سڑک کے بیچوں بیچ پتھر رکھ کر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ دراصل ایسے پتھر مقامی لوگ رکھتے ہیں اور کاریں روک کر مسافروں سے بھتہ مانگتے ہیں۔ چنانچہ خرم احمد نے یہاں گاڑی نہیں روکی۔ ویسے بھی وہاں کوئی بیرئیر والا ناکہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کوئی پولیس اہلکار بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ تاہم جونہی انہوں نے گاڑی نکالی تو پیچھے سے فائرنگ شروع ہو گئی اور ارشد گولیوں کی زد میں آ گئے۔ خرم نے گھبرا کر گاڑی بھگا لی۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ اس دوران خرم نے بڑے بھائی وقار کو فون کر کے صورت حال بتائی جنہوں نے ہدایت کی کہ آپ سیدھا گھر جائیں۔ جب گاڑی گھر پہنچی تو خرم نے دیکھا کہ ارشد کی گردن ڈھلکی ہوئی ہے اور وہ سیٹ پر بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ بقول خرم جب انہوں نے وقار احمد کو فون کر کے بتایا کہ ارشد بے حس حرکت ہے تو وقار سمجھا کہ شاید ارشد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ لیکن جب وقار فوراً وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ گاڑی پر برسائی جانے والی گولیوں میں سے دو ارشد شریف کو پیچھے سے لگ چکی ہیں اور وہ جاں بحق ہو چکے ہیں۔

جب وقار احمد پاکستانی سفیر سیدہ ثقلین کو تفصیل بتا رہے تھے تو ان سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ ارشد شریف کے سر میں گولی لگنے کے بعد تو گاڑی میں ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا پھر وقار کو ایسا محسوس کیوں ہوا کہ صحافی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ وقار سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ کا ارشد شریف سے کیا تعلق تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری ان سے دوستی تھی اور میں ان سے کراچی میں ملا تھا۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ ارشد تو اسلام آباد میں رہتے تھے تو اس کا جواب وہ گول مول کر گئے۔ وقار سے کیا جانے والا اگلا سوال بہت اہم ہے اور اس کا جواب بہت حیران کن ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ کو پتہ چل گیا کہ ارشد اس دنیا میں نہیں رہے تو آپ نے سب سے پہلے ان کے خاندان والوں یا دوستوں میں سے کس کو فون کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ارشد شریف کی فیملی یا دوستوں میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا اسلئے میں نے پہلی ٹیلی فون کال سلمان اقبال کو کی اور انہیں بتایا کہ ارشد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وقار نے کہا کہ سلمان نے ہی ارشد شریف کو یہاں بھجوایا تھا اور ان سے میری دوستی ہے۔

بلال غوری کے مطابق دوسری جانب سلمان اقبال کی بے حسی اور کم ظرفی دیکھیں کہ سب کچھ معلوم ہو جانے کے باوجود ساری رات اور پھر دوپہر تک ان کے چینل پر یہ خبر چلتی رہی کہ ارشد کینیا میں ایک حادثے میں مارے گئے ہیں۔ انہیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اصل خبر دے سکیں یا ارشد کے گھر والوں کو ہی سچ بتا دیں۔ اس خبر کی بنیاد پہ کنفیوژن پیدا ہوئی اور ڈیجیٹل میڈیا پر یہ خبر چلتی رہی کہ ارشد ایک کار حادثے میں مارے گئے ہیں۔ اس معاملے پر کینیا پولیس کا مؤقف بھی بار بار بدلتا رہا جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اور ارشد شریف کی موت حادثہ نہیں ۔ پولیس کے مؤقف میں ایک جھول یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق گاڑی نیروبی سے جا رہی تھی جبکہ وقار کے مطابق گاڑی نیروبی کی طرف واپس آ رہی تھی۔ بلال غوری کے مطابق ہمارے ہاں پولیس مقابلوں کی جیسی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں ویسی ہی کہانی کینیا کی پولیس بھی ارشد شریف کے قتل بارے گھڑ رہی ہے اور ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔

Back to top button