کیا 25 نومبر کو عمران اور فیض حمید پر فرد جرم لگنے والی ہے؟

اڈیالہ جیل میں بند عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دینے کی اصل وجہ انکا یہ خوف ہے کہ 25 نومبر کو فیض حمید کے علاوہ ان پر بھی فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارٹی کارکنوں کو اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈلوانے اور سزا سے بچنے کے لیے مروانے کے لیے اسلام آباد بلایا جا رہا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود یہ دعوی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کے جرائم بہت سنگین ہیں۔ فوج میں لوگوں کو بغاوت پر اکسانا، ملک بھر میں فوج کی تنصیبات پر حملہ کرنا، شہدا کی یادگاروں کو نذرآتش کرنا تو ناقابل معافی ہے ہی، توشہ خانہ میں بھی خان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اور ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس تو سامنے کی بات ہے اس میں معافی نہیں ہو سکتی۔ سب قانونی تقاضے پورے ہو چکے ہیں۔ اب کیس کا فیصلہ سنانا باقی ہے۔ عمران خان کو اس فیصلے کا پتہ ہے اسی لیے وہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے کارکنوں کی جانوں کی قربانی دینا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر انہوں نے 24 نومبر کو احتجاجی منصوبہ تیار کیا ہے جس کی آڑ میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کے لیے مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر ڈیل نہ ہو پائی تو 24 نومبر کو لازمی اپنے کارکنان کی لاشیں گرانا ہوں گی۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ عمران خان کا انقلاب دنیا کا واحد انقلاب ہے جو ہمیشہ سے ڈیل کا منتظر ہے۔ یہ وہ انقلاب ہے جو کسی بڑے گھر کی صدا کا انتظار کر رہا ہے۔ اس انقلاب کا نام اب ’التجا‘ بنتا جا رہا ہے۔ اب اسے ’فائنل کال‘ نہیں ’فائنل فریاد‘ کہا جانا چاہیے کیونکہ ہر طرف سے اب رستے بند ہو رہے ہیں۔ ہر طرف سے انکار ہو رہا ہے۔ اب کوئی حقیقی آزادی کی بات بھی نہیں کر رہا۔ اب کوئی ’کیا ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کا نعرہ تک نہیں لگا رہا۔ اب احتجاج کی کال دے کر صرف ڈیل کی کوشش کی جا رہی ہے اور نوشتہ دیوار ہے جو عمران خان کا منتظر ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کی اگر آپ تحریک انصاف کے کارکن ہیں تو آپ کے پاس جماعت سے کنارہ کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ اب آپ کو احساس ہو چلا ہوگا کہ یہاں پر خان کو آپ کی جدوجہد نہیں آپ کی لاشیں درکار ہیں۔ اب کارکنوں کا جذبہ نہیں ان کا بہتا خون درکار ہے۔ اب ان کا شعور نہیں تماشا درکار ہے۔ اب کارکن، مخلص کارکن جماعت کا اثاثہ نہیں جماعت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ اب بیانیہ نہیں ضمانت درکار ہے۔ اب علی امین گنڈا پور کارکنوں کے لیے سب سے بڑی حقیقت ہیں جو سوائے اپنے دھڑے کے کسی کو مانتے ہی نہیں۔

بطور سابقہ خاتون اول کرپشن الزامات کا سامنا کرنے والی عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی نے جس ذلت آمیز طریقے سے پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اسمبلی کو 24 نومبر کو ورکرز اکٹھا کر کے اسلام آباد نہ لانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، اس سے قائدین کی آنکھیں تو کھل گئی ہیں مگر زبانیں اب بھی بند ہیں۔ لیکن زیادہ دیر نہیں لگے گی جب کارکنوں کی زبانیں بھی کھلیں گی اور وہ کھل کر اس بے عزتی کا بدلہ لینا چاہیں گے۔

عمار مسعود کے مطابق جلد کارکن سوال کریں گے کہ ہمارا نصیب کیا صرف رسوا ہونا ہے۔ کبھی علی امین گنڈا پور کے ذریعے، کبھی بشریٰ بی بی کے ذریعے۔ کیا تحریک انصاف کی عزت نفس کا جنازہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے ذریعے ہی نکلے گا؟ خان صاحب نے ساری عمر کارکنوں کو یہ بتایا کہ سب سے بڑا جرم موروثی سیاست ہے۔ سب سے بڑا الم خاندان میں سیاست کو قید کرنا ہے۔ آج تحریک انصاف نند، بھاوج کے جھگڑوں کا شکار ہے۔ نہ کسی کو بیانیے کی فرصت ہے نہ حقیقی آزادی کا خیال۔ یہ پاور گیم ہے جس میں گدھ مال کو نوچنے  کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ بھابھی کہتی ہیں کہ ہر رکن پانچ سے دس ہزار بندہ لے کر آئے۔ نند کہتی ہے کہ ہم ان سے مذاکرات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ تحریک انصاف دو کشتیوں میں سوار ہو گئی ہے اور دو کشتیوں کے سوار کے پاس ڈوب جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ مذاکرات کی خبریں خود بنانے کا اوران کی بنیاد پر سوشل میڈیا میں قیامت بپا کر دینے کا ہنر پی ٹی آئی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نہ مذاکرات کی کوئی پیشکش ہے نہ  مطالبات پر کوئی غور کیا جا رہا ہے۔ نہ کوئی ٹیم تشکیل دی گئی ہے نہ خان کی ان افواہ نما خبروں سے کوئی متاثر ہو رہا ہے۔ نہ لانگ مارچ کی دھمکی سے کسی کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں نہ فائنل کال سے کوئی تھر تھر کانپ رہا ہے۔ سب کچھ پرسکون ہے سوائے عمران خان کے۔ کیونکہ انہیں نہ سیاسی استحکام خوش آ رہا ہے نہ معاشی ترقی پسند آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا خود  ہی نادیدہ مذاکرات کی خبریں جاری کرتا ہے، یوٹیوبر کے تبصرے سن کر سر دھنتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ نہ کوئی نو مئی کے مجرموں سے بات کررہا ہے نہ ان کی بات سن رہا ہے۔ بات بن نہیں رہی البتہ باتیں بنائی جا رہی ہیں۔

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات؟ جماعت اسلامی نے بڑا انکشاف کر دیا

فیصل واوڈا کے طرز سیاست سے آپ جتنا مرضی اختلاف کریں یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن فیصل واوڈا نے اتنے برسوں میں ایک بات سب کے ذہن نشین کروا دی ہے کہ جب وہ کسی پریس کانفرنس کے لیے ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کوئی خبر ہے۔ فیصل واوڈا نے اگلے روز جو انکشافات کیے وہ بہت قابل غور ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ کارکنوں سے بشریٰ بی بی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں۔ دس ہزار تو کیا اب ایم این اے پچاس بندے نہیں لا سکتے۔ یہ بات درست ہے ۔کیونکہ پنجاب میں تحریک انصاف کے کارکن اب اس روز روز کی لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ بھی سکون کے سانس کے خواہشمند ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی وفاداری کا ثبوت گرفتاری، مار کٹائی اور جلاؤ گھیراؤ میں پوشیدہ ہے۔ کیا ان کے مقدر میں کبھی بشریٰ بی بی سے ذلیل ہونا کبھی علیمہ خان کی باتیں سننا اور کبھی علی امین گنڈا پور جیسے کردار کا دفاع کرنا ہی رہ گیا ہے۔

عمار مسعود کے مطابق وہ ایم این اے، ایم پی ایز سیاست میں اس لیے آئے تھے کہ اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام کر سکیں، اپنے حلقے کے لوگوں کے کام آ سکیں۔ مسلسل رسوائی کا کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ خان کی خاطر وطن دشمنی ان کے خیال میں بھی نہ تھی۔ فیصل واوڈا کی دوسری خبر پہلی سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 24 نومبر کو احتجاج اس لیے ہو رہا ہے کہ 25 نومبر کو عمران خان اور فیض حمید پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کارکنوں کو اس لیے مروانے کے لیے بلایا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کے جرائم پر پردہ ڈال سکیں۔

Back to top button