اسلام آباد ہائیکورٹ :جسٹس جہانگیری کی چھٹی یقینی کیسے ہوئی؟
کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کی تصدیق کے بعد جسٹس جہانگیری کی نااہلی یقینی ہو گئی۔وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر خالد عراقی نے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مؤقف اپنایا ہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی قوانین کے عین مطابق کیا گیا،جسٹس جہانگیری کی ڈگری جعلی ہونے کے حوالے سے یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کمیٹی کے پاس ٹھوس شواہد کی موجودگی کی وجہ سے انھیں ذاتی طور پر شنوائی کا موقع دئیے بغیر ڈگری کی منسوخی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی اور سنڈیکیٹ کا خیال تھا کہ جج کے خلاف کافی ثبوت موجود تھے، اور انہیں ذاتی طور پر نہ سننا مناسب سمجھا گیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ تعلیمی کمیٹی اور سنڈیکیٹ کی مشاورت سے کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور انہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تب کے صدر عارف علوی نے جج مقرر کیا تھا۔ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر تب مقبول ہوئے جب انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف یہ درخواست اعلیٰ عدلیہ میں متنازعہ درخواستیں دائر کرنے والے قانون دان میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ میاں داؤد ایڈوکیٹ کے دعوے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی وہ ڈگری ہی مشکوک ہے جس کی بنیاد پر وہ پہلے وکیل اور پھر جج بنے تھے۔ کراچی یونیورسٹی نے اسی بنیاد پر جسٹس جہانگیری کی قانون کی ڈگری منسوخ کر دی تاہم بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے جامعہ کراچی کی ان فیئر مینز کمیٹی کی سفارشات اور سینڈیکیٹ کا جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئےمزید اقدامات سے روک دیا تھا۔
تاہم اب جامعہ کراچی نے جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ درخواستگزار کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی پٹیشن دائر کرے۔ یونیورسٹی کی ڈگری کوئی پبلک ڈاکیومنٹس نہیں ہوتی یہ صرف طالب علم کی ملکیت ہوتی ہے۔ درخواستگزار کو ڈگری کے جھوٹا ہونے کا اندیشہ تھا تو کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کرسکتا تھا۔جامعہ کراچی نے کہا کہ درخواستگزار نے یہ کوشش کی ہے کہ وہ طالب علم کی ڈگری کو عدلیہ کی آزادی سے منسلک کرے۔ کراچی یونیورسٹی کو سنے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یونیورسٹی نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ درخواستگزار نے مفروضوں کو بنیاد بناکر درخواست دائر کی ہے۔ اس درخواست کے ذریعے یونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی گئی ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ سکھانے کا مرکز ہوتا ہے اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتا ہے۔ جسٹس جہانگیری کی ڈگری کی منسوخی کا فیصلہ یونیورسٹی قوانین اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے میاں داؤد کا موقف ہے کہ جسٹس طارق کی وکیل بننے کی بنیادی قابلیت ایل ایل بی کی ڈگری ہی جعلی ہے جس کی بنیاد پر انہیں جج بنایا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ ایک غلط فیصلہ تھا جسے ٹھیک کرنا چاہیے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے مطابق انہوں نے یونیورسٹی آف کراچی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا جبکہ جج صاحب کی ٹیبولیشن شیٹ کے مطابق ان کے ایل ایل بی پارٹ ون کا انرولمنٹ نمبر 5988 امتیاز احمد نامی ایک اور شہری کا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایل ایل بی پارٹ ون کی مارک شیٹ پر ان کا نام طارق جہانگیری ولد محمد اکرم لکھا ہوا ہے جب کہ شناختی کارڈ کے مطابق ان کے والد کا اصل نام قاضی محمد اکرم ہے۔ میاں داؤد کے مطابق جسٹس طارق جہانگیری کی تعلیمی دستیاویزات بھی دو نمبر ہیں۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے تحریری طور پر تصدیق کی ہے کہ طارق محمود ولد محمد اکرم 1984 سے 1991 تک ان کے کالج کے طالب علم ہی نہیں تھے، جب کہ کنٹرولر امتحانات کے مطابق ایک انرولمنٹ نمبر دو افراد کوالاٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اپنی بنیادی ڈگری منسوخ ہو جانے کے بعد جسٹس طارق جہانگیری کا جج کی کرسی پر برقرار رہنا ممکن نہیں اور ان کے دن پورے ہو گئے ہیں