امریکا، مصر اور قطر کی مشترکہ کوشش، اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے سفارتی دباؤ

واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر موجود اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون دیرمر پر توقع ہے کہ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر امریکا کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہوگا۔
ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق، ٹائمز آف اسرائیل نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنگ بندی میں حائل بڑی رکاوٹ حماس کا یہ مطالبہ ہے کہ اسرائیل اپنے فوجی آپریشن کو مستقل طور پر بند کرے، جبکہ اسرائیل محض عارضی جنگ بندی کا خواہاں ہے تاکہ اگر ضرورت پیش آئے تو دوبارہ کارروائی کی جا سکے۔
اسی ضمن میں، اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام رون دیرمر پر زور دیں گے کہ وہ باقی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ایک معاہدے پر رضامند ہوں۔ امریکی مؤقف یہ بھی ہے کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی اسرائیلی پالیسی کو وقتی طور پر مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
دریں اثنا، یدیعوت آحارونوت نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حالیہ ترجیحات میں ممکنہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، جنہوں نے حماس کے خاتمے کے بجائے یرغمالیوں کی بازیابی کو فوقیت دی ہے۔
مصر، قطر اور امریکا کی مشترکہ جنگ بندی تجویز
دوسری جانب، مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا ملک قطر اور امریکا کے ساتھ مل کر غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی پر مبنی ایک نئے معاہدے پر کام کر رہا ہے۔
مصری ٹی وی چینل آن ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عبدالعاطی نے کہا "ہم ایک پائیدار حل اور مستقل جنگ بندی کی طرف بڑھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔”
ٹرمپ کی نیویارک کے ممکنہ میئر ظہران ممدانی کو فنڈز روکنے کی دھمکی
ان کے مطابق، موجودہ تجویز کے تحت 60 دن کی جنگ بندی، کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں فوری انسانی امداد (خصوصاً طبی سامان) کی فراہمی شامل ہے۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، جس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ آنا چاہیے، جس میں دشمنی کا مستقل خاتمہ اور تحفظ کے ضمانتی اقدامات شامل ہوں۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر اسرائیلی جارحیت دوبارہ شروع ہوئی تو یہ پورے خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔