ڈ یپ فیک ویڈیوز جمہوریت کے لیے خطرہ کیسے؟

کسی بھی شخص کی حقیقت سے قریب ترین ، نقلی ویڈیو بنانے کی صلاحیت رکھنے والی جدید ترین ڈ یپ فیک ٹیکنالوجی کا غلط استعمال مستقبل میں جمہوریت اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ ڈیپ فیک ویڈیو ٹیکنالوجی کو مشہور اداکاروں کی نقلی فحش فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ملکوں کے سیاسی رہنماؤں کی جعلی ویڈیوز بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے ۔

اسی لئے ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوں جوں یہ ٹیکنالوجی عام ہوگی اس کا منفی استعمال اور اس کے ذریعے غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی عام ہوگا،پاکستانی سیاست میں آج کل ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے بڑے چرچے ہیں جو سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئے جس میں ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کی کسی جعلی ویڈیو کی ذریعے ان کی کردار کشی کی جائے گی۔

اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے متعلق مختلف ٹوئٹس کیں جس میں انھوں نے اپنے حامیوں کو بتانے کی کوشش کی کہ کیسے اس قسم کی ٹیکنالوجی سے کسی کی بھی کردار کشی کی جا سکتی ہے۔

ڈیپ فیک ویڈیو کیا ہے؟ آسان زبان میں اگر کہا جائے تو ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی ایک شخص کے چہرے پر کسی دوسرے شخص کا چہرہ اور آواز لگا دی جاتی ہے جسے دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی ویڈیو دیکھ رہا جو دراصل اس کی ہے ہی نہیں۔

تو اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ فوٹوشاپ یا اس طرح کے دیگر ایڈٹنگ سافٹ وئیر بھی تو یہی کام کرتے ہیں تو کیا وہ بھی ڈیپ فیک ہیں یا نہیں۔ تو جواب ہے ۔ نہیں ۔ فوٹو شاپ جیسے سافٹ وئیرز کی مدد سے ہم اکثر خود ایک تصویر کو ایڈیٹ کرتے ہیں جبکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے سافٹ وئیر فراہم کیے گئے ڈ یٹا کی مدد سے ایسا کرنا سیکھتا ہے، جو کہ تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ہوتا ہے۔

مثلاً اگر کسی نے مائیکل جیکسن کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانی ہو تو وہ مائیکل جیکسن کی متعدد تصاویر اور ویڈیوز اکٹھی کرے گا جس کی مدد سے ڈیپ فیک بنانے والا سافٹ وئیر ان کے چہرے کی حرکت اور تاثرات کا معائنہ کرے گا اور جب مائیکل جیکسن کی شکل کسی دوسرے چہرے پر لگائی جائےگی تو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نہ صرف اس چہرے کو مائیکل جیکسن کے چہرے سے بدل دے گی بلکہ اس چہرے کی حرکت اور تاثرات کو بھی مائیکل جیکسن کے چہرے اور تاثرات جیسا بنا دے گی۔

اس ٹیکنالوجی کے بارے میں جان کر اکثر ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ شاید اس ٹیکنالوجی کا مقصد جعلی ویڈیو بنا کر کسی کی کردار کشی کرنا ہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔

سائبر سکیورٹی کے ماہرین کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا استعمال ہالی وڈ کی فلموں بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً مشہور فلم فاسٹ اینڈ فیوریس سیون کی فلمنگ کے اختتام سے قبل ہی اس کے مرکزی کردار نبھانے والے پال واکر کی ایک روڈ حادثے میں ہلاکت ہو گئے تو فلم ڈائریکٹر نے ایک سین ان کے بھائی سے کروایا اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے مدد سے ان کے چہرے پر پال واکر کا چہرا لگا دیا جس سے دیکھنے والوں کو لگا کہ اس سین میں بھی پال ہی ہیں جبکہ وہ ان کے بھائی تھے۔

اسی طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا سیاست میں بھی استعمال کیا گیا جب انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک رہنما منوج تیواری نے 2020 کے الیکشن میں مختلف زبانوں میں ویڈیو جاری کیں جس میں ووٹ بی جے پی کو ڈالنے کا کہا گیا۔ اب بظاہر اس ویڈیو میں کچھ غلط نہیں تھا سوائے یہ کہ انگریزی میں پیغام دینے والا شخص منوج تیواری نہیں بلکہ کوئی اور تھا جن کے چہرے پر منوج کا چہرہ لگایا گیا تھا اور ان کی آواز کو منوج جیسا بنایا گیا تھا۔

امریکی سیاست میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال منفی رہا جب سابق صدر باراک اوباما کی ویڈیو جاری کی گئی جس میں انھیں قوم سے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دراصل یہ ایک ڈیپ فیک ویڈیو تھی اور باراک اوباما نے ایسے الفاظ کبھی ادا ہی نہیں کیے۔

سائبر سکیورٹی ایکسپرٹس کے مطابق سلبریٹیز اور سیاسی شخصیات کی ڈیپ ویڈیوز ایک عام شخص کی ویڈیو بنانے سے زیادہ آسان ہوتی ہے۔

’آپ کو ڈیپ فیک ویڈیو بنانے کے لیے اس شخص کی زیادہ سے زیادہ ویڈیوز اور تصاویر درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے مشہور شخصیات کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔‘

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا ایک نقصان اس کو استعمال کرتے ہوئے فحش ویڈیوز کی تیاری بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ اداکاروں کی ایسی متعدد جعلی ویڈیوز ہیں جن کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے بنایا گیا ہے۔
ہم نے عام عوام کو ایک اصلی اور ڈیپ فیک ویڈیو دکھائی اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کون سی ویڈیو اصلی ہے ؟ حیران کن طور پر بہت سے لوگ ڈیپ فیک ویڈیو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے۔

ایک کم تجربہ کار شخص اگر ڈیپ فیک ویڈیو بنائے گا تو اس کی شناخت کرنا آسان ہے۔
’لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ویڈیو جتنی مہارت سے بنائی گئی ہوگی اس کی شناخت اتنی ہی مشکل ہے اور اس کے علاوہ کیونکہ یہ ویڈیوز مشین لرنگ (machine learning) سے بنائی جاتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ مشین اس کی شناخت کرنے والے طریقے کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائے۔‘
تاہم امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزارت داخلہ کے زیر نگرانی ہونے والی تحقیق میں ڈیپ فیک ویڈیوز کو شناخت کرنے والے سافٹ وئیر کی تیاری جاری ہے۔

لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کیونکہ ڈیپ فیک ویڈیوز کی شناخت کرنا کہ آیا یہ اصلی ہے یا نہیں یہ پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے لہذا ممکن ہے کہ جب تک اس بات کہ تعین ہو کہ وائرل ویڈیو ڈیپ فیک ہے تب تک نقصان ہو چکا ہو۔

عمران خان نے عامر لیاقت کو تیسری بیوی بارے کیا مشورہ دیا؟

ذرا سوچئے کہ کوئی انڈین وزیر اعظم کی ڈیپ فیک ویڈیو بنا دے جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ ان کی فوج پاکستان پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا پاکستان اس ویڈیو کی اصلیت جاننے تک کا انتظار کرے گا یا اپنے ملک کی حفاظت کے لیے فورا ًجوابی کارروائی ؟

Related Articles

Back to top button