کیا تحریک انصاف بھی عمران کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی؟

8 جون کو ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہونے والے سابق وزیراعظم عمران خان مغربی جمہوریت کے صاف ستھرے اصولوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن انہوں نے خود کبھی اپنی جماعت کے اندر حقیقی جمہوریت نہیں آنے دی جو پی ٹی آئی کو ان دو موروثی جماعتوں سے ممتاز بناتی جنہیں عمران سخت ناپسند کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پی ٹی آئی کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن میں بغیر کسی الیکشن کے عمران خود بلامقابلہ چیئرمین بن گئے، شاہ محمود قریشی کو وائس چیئرمین بنا دیا گیا اور اسد عمر مرکزی سیکرٹری جنرل بن گئے۔ اس سے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں عمر سرفراز چیمہ اور نیک محمد کے ڈمی پینلز نے عمران خان کے پینل کے حق میں الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بلامقابلہ پارٹی چیئرمین بن کر عمران نے خود ہی اپنے حقیقی جمہوریت کے بیانیے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 70 برس سے زائد عمر کے عمران خان اپنی پارٹی کو ایک کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں جس میں ان کے سوا نہ تو کسی کی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت ہے حالانکہ انہیں سوچنا چاہئے کہ ان کے بعد تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟ ناقدین کہتے ہیں کہ اگر عمران اسی طرح پارٹی کو چلاتے رہے تو ان کے خاتمے کے ساتھ ہی پارٹی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

اس معاملے پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ بہت

پنجاب : پی ٹی آئی اور ق لیگ کا بجٹ ،ضمنی الیکشن کیلئے لائحہ عمل طے

بھی ہوا تو عمران خان مزید پانچ یا سات سال سیاست کر لیں گے۔ لیکن ان کے بعد PTI کا وجود برقرار رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ انکا کہنا ہے کہ شریف اور زرداری خاندانوں میں ایسے رہنما موجود ہیں جو ابھی 30 یا 40 کے پیٹے میں ہیں اور عمران کے جانے کا انتظار کر کے بعد میں پارٹی سنبھال سکتے ہیں جب انہیں چیلنج کرنے والا کوئی شخص PTI میں نہیں ہوگا۔ ایسے میں اگر سیاسی اخلاقیات میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو عمران کی 26 سال کی تمام تر محنت انکے بعد اکارت جائے گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کوششوں کا ثمر ان کے بعد بھی جاری رہے تو انہیں PTI کو جماعت کے اندر بنیادی جمہوریت پر مبنی اصولوں کے تابع بنانا ہو گا تاکہ تحریک انصاف ان کے بعد بھی ایک موثر پارٹی کے طور پر میدان میں موجود رہے۔

یاد رہے کہ پچھلی پانچ دہائیوں میں پاکستان پر دو فوجی آمروں کے سوا جن دو خاندانوں نے حکمرانی کی ہے، ان میں بھٹو خاندان51 سال اور شریف خاندان 41 برس تک ملکی سیاست پر چھائے رہے ہیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں کی سیاست کے بعد ان دو خاندانوں کو یہ سمجھ ضرور آ گئی ہے کہ انہوں نے اپنے غلبے کو چیلنج کرتی تیسری قوت کو سر اٹھانے سے روکنے کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے لہذا اب پیپلزپارٹی اور نواز لیگ مخلوط حکومت میں اتحادی ہیں۔ تاہم تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ خاندانی حکمرانی دنیا میں کوئی انوکھی چیز نہیں۔ ہمارے اپنے خطے میں ہی آزادی کے بعد 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے تک نہرو خاندان دہائیوں تک بھارت پر حکمرانی کرتا رہا۔ جواہر لعل نہرو 17 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔ ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی قریب 16 برس، منموہن سنگھ نہرو خاندان ہی کی پراکسی کے طور پر 10 اور راجیو گاندھی 5 سال حکمران رہے۔ نہرو خاندان نے آزادی کے بعد 67 میں سے لگ بھگ 47 برس حکومت کی۔ اب خاندان اقتدار سے باہر ہے لیکن اس کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔

اسی طرح فلپائن میں بھی متعدد سیاسی خانوادے رہے ہیں جن میں اکینو اور مارکوس خاندان زیادہ مشہور ہیں۔ مارکوس 21 سال صدر رہا اور اپنے اور اہلیہ کے خلاف کرپشن الزامات پر ذلت آمیز انداز میں نکالا گیا۔ لیکن عوام یہ سب بھول چکے ہیں اور اس برس انہوں نے اسکے بیٹے کو ایک بار پھر انتخابات میں چن لیا ہے جب کہ اس کی بیٹی بھی سیاست میں موجود ہے۔ اکینو جونیئر بھی مارکوس دور میں اپوزیشن کا اہم ترین رہنما تھا۔ جب اسے قتل کیا گیا تو ہمدردی کے ووٹ نے اسکی بیوی کورازون اکینو کو صدر منتخب کروا دیا۔ کئی سال بعد اس کا بیٹا بینائینو اکینو ملک کا صدر بنا۔ سری لنکا بھی موروثی سیاست کی بہترین مثال ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے مہندا راجا پکسا اس کی سیاست پر غالب رہا ہے۔ پہلے یہ 2005 سے 2015 تک صدر اور اس کے بعد سے اب تک وزیر اعظم رہا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک راجا پکسا خاندان کا ایک بھائی صدر تھا، دوسرا وزیر اعظم، تیسرا وزیرِ دفاع اور چوتھا وزیرِ خزانہ تھا۔ حالیہ بحران کے بعد سری لنکا کے صدر نے اپنے وزیر اعظم بھائی کو نکال دیا، اس کے بعد دوسرے بھائی کو بھی علیحدہ کر دیا لیکن سری لنکن سیاست پر خاندان کی گرفت اب بھی مضبوط ہے۔

اس سے پہلے سری لنکا پر بندرانائیکے خاندان کا راج تھا۔ سولومن بندرانائیکے 1956 سے 1959 تک وزیر اعظم رہا۔ اس کے قتل کے بعد اسکی بیوی سری ماوو بندرا نائیکے 1960 سے 2000 کے دوران تین مرتبہ وزیر اعظم بنی۔ 1994 میں اس کی بیٹی چندریکا کماراٹنگا صدر بنی اور 11 سال اس عہدے پر برقرار رہی۔ 1994 سے 2000 تک ماں بیٹی دونوں ایک ہی وقت میں وزیر اعظم اور صدر رہیں۔

تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد کا سیاست پر چھائے رہنا صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے تمام خطوں میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ عمران سیاسی موروثیت کے بارے میں گلا پھاڑ کر چلاتے رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوامی شمولیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سوچ قبولیتِ عام بھی رکھتی ہے۔ ان سیاسی خاندانوں نے جمہوریت کو کس آمرانہ انداز میں چلایا ہے اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 50 سالوں میں ملک کو تین ہی لوگوں نے چلایا ہے یعنی نواز شریف، بینظیر اور آصف زرداری جب کہ عمران خان اس افق پر ایک نو وارد ہے۔ لیکن کیا عمران اس تری مورتی کو ایک مستقل نئی صورت دے سکتا ہے؟ شاید نہیں۔ اپنا مشن آگے لے جانے کے لئے انکے پاس کوئی خاندان نہیں ہے۔ انکی پارٹی غیر منظم ہے اور آگے کون آئے گا، کون نہیں، اس کے کوئی طے شدہ ضوابط نہیں ہیں۔ پارٹی میں حقیقی انتخابات کبھی ہوئے نہیں کیونکہ نئے آنے والے مخصوص مفادات کو تہ و بالا کردیتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے جھٹکوں کو سہنے کی عمران میں ہمت نہیں۔ اس لئے اگر عمران خان چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا وجود انکے بعد بھی برقرار رہے تو انہیں اپنی پارٹی میں حقیقی جمہوریت لانا ہوگی۔

Related Articles

Back to top button