نقیب اللہ کے خاندان کا انصاف کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان

مشہور زمانہ نقیب اللہ قتل کیس میں بدنام زمانہ ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کی بریت کے عدالتی فیصلے کے بعد مقتول کے لواحقین نے انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نقیب اللہ کی ہلاکت ہی تھی جس کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دیا جانے والا دھرنا پشتون تحفظ موومنٹ کے سامنے آنے کی وجہ بنا۔

یاد رہے کہ سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نقیب اللہ کے گھر جاکر اس کے بوڑھے والد کے ساتھ ملاقات کی تھی اور انہیں انصاف کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ اس دوران نقیب اللہ کے والد بھی عدالتوں کے دھکے کھاتے ہوئے اپنے بیٹے کے غم میں گزر گئے۔ عدالت نے ایس ایس پی انوار اور دیگر ملزمان کو بری کر تے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ نقیب اللہ کو اغوا کر کے جعلی پولیس مقابلہ تو کیا گیا تاہم پولیس کی جانب سے ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہیں کی جا سکی۔

یاد رہے کہ 23 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 15 ملزمان کو بری کر دیا تھا۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اغوا اور جعلی پولیس مقابلہ تھا لیکن استغاثہ ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی اور اس عمل میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کر سکا۔ قتل کے اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت 25 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 18 کو بری کر دیا گیا جبکہ عدالت کا کہنا ہے کہ سات مفرور ملزمان کے بارے میں فیصلہ ان کی گرفتاری کے بعد سنایا جائے گا۔ 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی جبکہ رواں سال 14 جنوری کو مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو پیر کو سنایا گیا۔

جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ نقیب اللہ کا اغوا اور جائے وقوع پر ان کا قتل ثابت ہوا ہے جبکہ نقیب اللہ پر دہشت گردی کی ایف آئی آر سی کلاس ہونے کے بعد اسے چیلنج نہ کیے جانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ تھے تاہم عدالت نے قانونی اور تکنیکی بنیادوں پر اس معاملے کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نامزد ملزمان اس قتل میں ملوث تھے۔اس کیس میں مدعاعلیہان کی قانونی ٹیم کے رکن وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ نقیب محسود کے اہل خانہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بجلی سے انصاف تک پاکستان میں ہر چیز کا بریک ڈاؤن ہو رہا ہے‘۔

دوسری جانب اپنی بریت کے فیصلے پر بد نام زمانہ راؤ انوار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ جب تک سانس ہے تب تک لڑوں گا۔‘ پولیس مقابلے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا۔‘ یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار  نےدعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔ نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے اور ان کا موقف تھا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے بھی پولیس کی جانب سے مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ‘وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔’نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے اس واقعے کے بعد بتایا تھا کہ نقیب 2008 میں کراچی آئے تھے جہاں وہ حب چوکی کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ان کے مطابق نقیب نے کپڑے کے کاروبار کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے سہراب گوٹھ میں دکان بھی کرائے پر لے لی گئی تھی۔

لیکن راؤ انوار کی بریت پر سیاسی و سماجی حلقوں سے لے کر سوشل میڈیا صارفین، سبھی نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور وہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پانچ سال کی تاخیر کے باوجود تاحال نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ صحافی اجمل جامی نے حیرت ظاہر کیا کہ ‘مقدمے میں 51 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔ پانچ سال نقیب اللہ محسود قتل کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ اور اب کہا جا رہا ہے شواہد ناکافی ہیں۔’قرۃ العین نے اس کیس کے حوالے سے کہا کہ انصاف میں تاخیر ہی سب سے بڑی ناانصافی تھی۔ بہت سے صارفین نے نقیب کے والد محمد خان کی 2018 میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا بھی ذکر کیا جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انصاف کے لیے فوج ان کا تمام تر ساتھ دے گی۔ بیٹے کے مقدمۂ قتل میں انصاف کے منتظر محمد خان کی وفات 2019 میں ہوئی تھی۔ یہ نقیب اللہ کی ہلاکت ہی تھی جس کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دیا جانے والا دھرنا پشتون تحفظ موومنٹ کے سامنے آنے کی وجہ بنا۔ احتجاج کے ان دس روز میں منظور پشتین کی ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم پشتونوں کی ایک طاقتور آواز کے طور پر اُبھری اور اس کا نام تبدیل کر کے ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ رکھ دیا گیا۔

نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد منظور پشتین نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ  کیا اور پریس کلب کے باہر مظاہرین نے ڈیرہ ڈالا اور دھرنا دیا تھا۔ پی ٹی ایم نے ابتدائی طور پر چھ مطالبات پیش کیے جن میں راؤ انوار کی گرفتاری، سابقہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں اور فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور لاپتہ ہونے والے پشتونوں کی برآمدگی اور قبائلی عوام کے ناموس کی بحالی جیسے مطالبات شامل تھے۔ تام اب دیکھنا یہ ہے کہ ہائی کورٹ نقیب اللہ کے خاندان کو انصاف دے پاتی ہےیانہیں؟

نوازشریف نےمریم اور رانا ثنا کو اہم ٹاسک سونپ دیا

Related Articles

Back to top button