نون لیگ نے بلوچستان میں اپنا اقتدار کیسے پکا کیا؟

بلوچستان میں باپ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا حصہ رہنے والے الیکٹیبلز کے نون لیگ میں شامل ہونے کے بعد نواز شریف نے بلوچستان میں اپنا اقتدار پکا کر لیا ہے۔ نون لیگ شامل ہونے والے الیکٹیبلز اور دیگر سیاسی شخصیات میں سے اکثریت کا نہ صرف ماضی میں نواز لیگ سے تعلق رہا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً یہ دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ بنتے رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق اس پیش رفت بارےبظاہر عمومی رائے یہی ہے کہ ’اسٹیبلمشنٹ کی ہواؤں کا رُخ بھی ن لیگ کے حق میں‘ ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کوئی نیا معاملہ نہیں جہاں مرکزی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں کامیابی کے لیے مقامی الیکٹیبلز پر ہی انحصار کرتی ہیں تاہم بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) ایک ایسی جماعت تھی جس نے 2018 کے الیکشن سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی بن گئی اور حکومت قائم کی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بدلتی سیاسی صورتحال کے پیش نظر بظاہر ن لیگ بھی اب اُس تلخ ماضی کو بھلانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں پارٹی سے بغاوت کرنے والے الیکٹیبلز کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کے اقدام کا ناصرف سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دفاع کیا ہے بلکہ انھوں نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی شمولیت سے آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت بنے گی۔

تاہم دوسری طرف بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکٹیبلز کی اکثریت کی نواز لیگ میں شمولیت کے بعد بلوچستان کے سیاسی میدان میں گذشتہ پانچ سال سے اہم کردار ادا کرنے والی جماعت کے مستقبل سے جڑا ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال میں اب بلوچستان عوامی پارٹی کا وجود برقرار رہے گا یا نہیں؟اس کے بعد دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی، جس کے قیام پر خود ن لیگ کی جانب سے ’اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے‘ کے الزامات عائد کیے گئے تھے، اب اسی باپ پارٹی کی اکثریت نواز لیگ کی جانب رخ کیوں کر رہی ہے؟

خیال رہے کہ سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت بن گئی تھی۔ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق پہلے ڈھائی سال نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے جبکہ دوسری مدت کے لیے نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے نواب ثنا اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔تاہم نواز لیگ کے الیکٹیبلز کی بغاوت کی وجہ سے ثنا اللہ زہری اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ نواب ثنا اللہ زہری اور راحیلہ درانی کے سوا پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بن گئے۔ تجزیہ کار رضا الرحمان کے مطابق بلوچستان میں ’یہ ایک نیا سیاسی تجربہ تھا۔‘بلوچستان عوامی پارٹی کو بنانے میں سابق وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو، موجودہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سمیت بعض دیگر لوگ شامل تھے۔ایک نئی جماعت تو بن گئی لیکن آغاز سے ہی اسے اندرونی اختلافات اور اقتدار کی جنگ کا سامنا رہا جس میں پہلے پارٹی رہنما جام کمال خان کو وزرات اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔رضا الرحمان کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ قومی دھارے کی جماعتیں بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتیں اور صوبے کے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں جبکہ اس پارٹی کے قیام کے بعد بلوچستان کے فیصلے بلوچستان میں ہی ہوں گے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی کا تجربہ بظاہر ناکام رہا کیونکہ اس سے تعلق رکھنے والوں نے واپس ان جماعتوں کا رخ کر لیا جن کے بارے میں وہ کہتے رہے کہ وہ بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتے۔‘تاہم رضا الرحمان کے مطابق ’باپ میں اب بھی الیکٹیبلز موجود ہیں اور اس جماعت کو ایک پریشر گروپ کے طور پر برقرار رکھا جائے گا۔‘دوسری جانب صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’جن لوگوں نے اس پارٹی کو بنایا وہ ان الیکٹیبلز کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔‘

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جہاں میاں نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکٹیبلز کی بڑی تعداد نے نواز لیگ میں شمولیت اختیار کی بلکہ اس سے قبل جن سیاسی جماعتوں کی وفود نے نواز لیگ کے قائد سے ملاقات کی ان میں پارٹی کے نئے سربراہ نوابزادہ خالد مگسی کی قیادت میں بلوچستان عوامی پارٹی کا وفد بھی شامل تھا۔اس ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نوابزادہ خالد مگسی نے کہا کہ ہم نے میاں نواز شریف کو خوش آمدید کہا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ کی قیادت سے مزید ملاقاتیں ہوں گی تو کسی سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے بات ہو گی۔انھوں نے بتایا کہ میاں صاحب چاہتے ہیں کہ سیاسی عمل بہتر طریقے سے چلے۔بلوچستان میں ہونے والی یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کیوں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مقامی الیکٹیبلز کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے عروج پر تھے۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہواؤں کا رخ بلکل الٹی سمت میں چلنا شروع ہو گیا؟

تجزیہ کار سید علی شاہ کا ماننا ہے کہ ’پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال نواز لیگ کے حق میں تبدیل ہو چکی ہے۔‘’ایک سال پہلے آپ نے دیکھا کہ یہاں کے بڑے الیکٹیبلز کی لائنیں بلاول ہاؤس کے سامنے لگی ہوئی تھیں۔ لیکن جب سے نگران حکومت بنی ہے تو ہواؤں کا رخ ن لیگ کی جانب ہے۔‘صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’وفاداریاں تبدیل کرنے والے جانتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ جس طرف ہوا چلتی ہے یا جس طرف کا سگنل ملتا ہے تو وہاں جاتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ پیپلز پارٹی کی بجائے ن لیگ کی جانب جا رہے ہیں۔‘شہزادہ ذوالفقار کی رائے ہے کہ ’تحریک انصاف کی پنجاب میں کافی حمایت ہے جہاں پیپلز پارٹی کا زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا اور ایسے میں چونکہ اصل لڑائی پنجاب میں ہے جہاں تحریک انصاف کا مقابلہ ن لیگ ہی کر سکتی ہے، اس لیے ہوائیں بھی اس کے حق میں بدل گئی ہیں جس کے نتیجے میں الیکٹیبلز اس کی طرف جا رہے ہیں۔‘’چونکہ تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور اس کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں، اس لیے الیکٹیبلز یہ دیکھ رہے ہیں کہ مجموعی طور پر پلیئنگ فیلڈ نواز لیگ کے حق میں ہے اور ان میں سے زیادہ تر کی کوشش یہی ہے کہ وہ نواز لیگ میں جگہ بنا لیں۔‘

سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں یہ نہیں دیکھتیں کہ کس کا ماضی کیا ہے، بلکہ ان کے رہنما 99 فیصد صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میرا اُمیدوار جیت جائے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جو الیکٹیبلز آ رہے ہیں ان کو لے لو۔‘ تاہم مجموعی طور پر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس پیش رفت کے بعد بلوچستان میں نواز لیگ کی پوزیشن یقینا مضبوط ہو گی۔

Back to top button