آبنائے ہرمز کی بندش سے تیل کی قیمتیں دوگنی ہونےکاخدشہ

ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے فیصلے سے تیل کی قیمتیں دوگنی ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے بعد ایرانی پارلیمان کی جانب سے آبنائے ہُرمز کی بندش کی منظوری نے جہاں امریکہ اور یورپین ممالک کے چھکے چھڑا دئیے ہیں وہیں دنیا کو عالمی معاشی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سمندری تجارتی گزر گاہ ابنائے ہرمز کی بندش سے یورپین ممالک اور امریکہ میں آئل کے قلت کے بادل بھی منڈلانے لگے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق ’آبنائے ہرمز صرف سمندری گزرگاہ ہی نہیں بلکہ عالمی توانائی کی شہ رگ بھی ہے۔ اگر اسے بند کیا کیا تو عالمی معیشت پر اس کے وسیع تر اثرات پڑیں گے حقیقت میں عالمی معیشت کا کباڑہ نکل جائے گا۔‘ تاہم ماہرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ایران نے ماضی میں بھی کئی بار آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن اس نے کبھی آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا رسک نہیں لیا تاہم حالیہ کشیدگی کے دوران لگتا ہے کہ ایران اپنا یہ کارڈ بھی کھیلنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
خیال رہے کہ اسٹریٹیجک آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز کی چوڑائی صرف 33 کلومیٹر ہے، آبنائے ہرمز مشرق وسطیٰ کے خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دیگر دنیا سے جوڑتی ہے، اس سمندری پٹی کے ایک طرف امریکا کے اتحادی عرب ممالک تو دوسری طرف ایران وقع ہے۔دنیا کی یومیہ تیل کی سپلائی کا پانچواں حصہ یعنی تقریباً 20 فیصد تیل یہاں سے گزرتا ہے۔ آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے، ان ممالک میں پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوری ، یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔
اس آبی گزرگاہ سے دنیا کے 20 فیصد تیل اور 30 فیصد گیس کی ترسیل ہوتی ہے، یہاں سے روزانہ تقریباً 90 اور سال بھر میں 33 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں۔دنیا کی مائع قدرتی گیس کی تجارت کا پانچواں حصہ بھی اسی راستے سے گزرتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والا ملک قطر بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی گزر گاہ پر انحصار کرتا ہے۔ 33 کلو میٹر چوڑی اس سمندری پٹی سے دو شپنگ لینز جاتی ہیں، ہر لین کی چوڑائی تین کلو میٹر ہے جہاں سے بڑے آئل ٹینکرز گزرتے ہیں۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین معیشت کی روانی کے لیے خلیج سے اپنی ضرورت کا آدھا تیل منگواتا ہے جبکہ جاپان یہاں سے 95 فیصد اور جنوبی کوریا 71 فیصد تیل اسی راستے سے درآمد کرتے ہیں۔ آبنائے ہرمز سے ہی یہ تینوں ممالک خلیجی ممالک کو گاڑیاں اور الیکٹرانک سامان کی ترسیل بھی کرتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق آبنائے ہرمز عالمی معیشت کیلئے اس لیے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کا کوئی حقیقی متبادل موجود نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پرخلیجی ممالک کاتیل تاخیر کے بغیر کسی اور راستے سے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ آبنائے ہرمز واحد گہرے پانی کا راستہ ہے جو دنیا کے سب سے بڑے خام تیل کے ٹینکرز کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معاشی ماہرین کے بقول آبنائے ہرمز کی بندش سے صرف امریکہ یا یوپی ممالک ہی متاثر نہیں ہونگے بلکہ خیلجی ممالک کو بھی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کی معیشتیں تیل کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں، اس لیے آبنائے ہرمز کی بندش سے ان کے معاشی استحکام کو شدید دھچکا لگے گا۔
عالمی ماہرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ اور امریکی حملوں کے بعد ایران آبنائے ہرمز کو ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے کیونکہ ایرانی حکومت جانتی ہے کہ آبنائے ہرمز کی بندش سے جہاں عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا وہیں عالمی مارکیٹ میں کہ تیل کا بحران بھی پیدا ہو جائے گا اور تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک اوپر چلی جائیں گی۔
دفاعی ماہرین کے مطابق آبنائے ہرمز صرف ایران کے لیے ایک چوک پوائنٹ ہی نہیں بلکہ دنیا کی لائف لائن بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس آبی گرز گاہ کی بندش سے جہاں عالمی معیشت شدید متاثر ہو گی وہیں اس کے نتائج ایران کے لیے انتہائی خوفناک ہوں گے۔ماہرین کے مطابق ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کی ممکنہ ناکہ بندی کے بعد امریکہ اور یورپی یونین خلیجی ریاستوں کواپنے ساتھ شامل کرکے جاری محاذ آرائی کو مزید بڑھا سکتی ہے، جس سے ایک وسیع علاقائی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔