کیا افغانیوں کی پاکستانیوں کے ساتھ نفرت جائز ہے؟

حال ہی میں ایشیا کپ کے ایک کرکٹ میچ میں شکست کے بعد افغان شائقین کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ بدتمیزی اور تشدد کے واقعات پر ردعمل دیتے ہوئے معروف لکھاری یاسر پیر زادہ نے کہا ہے کہ ہماری نصابی کتابوں میں جس دشمن ملک کا ذکر ہے وہ ہندوستان ہے، فوجی تربیت کے دوران جس ’دشمن‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ بھی انڈیا ہے اور ہمارے ذہنوں میں جس دشمن ملک کا خاکہ ہے وہ بھی ہندوستان ہے۔ افغانستان کو ہم نے کبھی اپنا دشمن نہیں سمجھا بلکہ الٹا ہم یہ سمجھتے رہے کہ افغانیوں پر ہمارے بے شمار احسانات ہیں لہٰذا انہیں ہمارے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہئیں۔ یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعدہم نے افغان بھائیوں کی مدد کی،افغانستان میں جہاد کیا، اُن کے ملک کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا، لاکھوں افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی، انہیں شناخت دی، کاروبار کرنے کا موقع دیا، وہ یہاں آئے اور پھلتے پھولتے گئے۔ لیکن اِس کے صلے میں ہمیں افغانستان سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی اور آج یہ حال ہے کہ ہر افغان ہمیں گالیاں دیتا ہے اورہم سے اتنی شدید نفرت کرتا ہے کہ کرکٹ میچ کے دوران بھی یہ نفرت چھپائے نہیں چھپتی۔

علی امین گنڈا پور کی گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دھمکیاں

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں یاسر پیرزادہ سوال کرتے ہیں کہ کیا افغانیوں کی نفرت جائز ہے؟ کیا ہمیں اِس نفرت کی وجہ کو قبول کرکے انہیں گلے سے لگا لینا چاہئے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے ہمارا رشتہ 1979 سے شروع ہوتا ہے جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، حقیقت حال یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات پہلے دن سے ہی مثالی نہیں رہے، 1947میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور اِس کی وجہ وہ سرحدی تنازعات تھے جو برٹش انڈیا کے وقت سے چلے آرہے تھے۔ 1978 میں افغانستان میں ’سوشلسٹ انقلاب ‘آیا، افغانی اسے ’انقلاب ثور‘ کہتے ہیں۔ اِس انقلاب کے نتیجے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان برسر اقتدار آگئی اور نور محمد تراکی سربراہِ حکومت بن گئے، اِس انقلاب کو کمیونزم کی فتح سمجھا گیا، گو کہ پارٹی نے علی الاعلان خود کو کمیونسٹ کہنے سے گریز کیا تاہم بعد میں انہوں نے واضح کردیا کہ وہ مارکس اور لینن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے افغانستا ن کو جدید خطوط پر استوار کریں گے۔سوویت یونین نے اِس حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے بھاری فوجی امداد دی۔ تاہم بعد میں نور محمد تراکی کے نائب حفیظ اللہ امین نے انہیں قتل کرکے اقتدار پرقبضہ کرلیا، افغانستان میں اِس حکومت کے خلاف مذہبی رجحانات رکھنے والے طبقات کی طرف سے بغاوت کی اطلاعات آنا شروع ہوگئیں۔ حفیظ اللہ امین نے سوویت یونین سے مدد کی درخواست کی، اُس زمانے میں چونکہ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی لہٰذا سوویت پولٹ بیورو کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں افغانستان میں ایرانی طرز کا انقلاب برپا نہ ہوجائے، سوویت یونین کو یہ رپورٹ بھی ملی کہ حفیظ اللہ امین امریکیوں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہاہے۔ اس تناظر میں سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں، شدید لڑائی کے بعد حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سوویت حمایت یافتہ ببرک کمال افغانستان کا حکمران بن گیا۔

یاسر پیرزادہ بتاتے ہیں کہ یہاں سے پاکستان کی انٹری شروع ہوتی ہے، ہم امریکہ کے ’پٹھو‘ بن کر افغانستان میں کود گئے، اپنے ملک سے جہادی بھرتی کرکے افغانستان بھیجے اور پھر ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جو ایک دہائی تک جاری رہی، لاکھوں افغان بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان مارے گئے، در بدر ہوئے، اُن کا گھر بار اجڑ گیا، وہ پاکستان میں افغان مہاجر بن گئے۔ اُن کی نسلیں تباہ ہو گئیں۔ خدا خدا کر کے جب سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہوا تو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جس میں پاکستان نے اپنے پسندیدہ گروپوں کی حمایت جاری رکھی۔ 1996 میں طالبان نے زور پکڑنا شروع کیا اور قندھار سے اٹھ کر پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا، اِس ’فتح مبین ‘ کا کریڈٹ بھی پاکستان لیتا ہے۔ اُس کے بعد نو گیارہ کا حملہ ہوا اور باقی تاریخ ہے۔ بقول یاسر پیرزادہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کو سوویت یونین کے شکنجے سے آزاد کروایا تو یہ بھول جاتے ہیں کہ افغانستان نے ہمیں ایسی کوئی ’درخواست‘ جمع نہیں کروائی تھی، ہم نے سرد جنگ میں ایک سپر پاور کے حکم پر افغانستان میں مداخلت کی، افغانستان میں تو انقلابی حکومت آچکی تھی، وہ سوشلسٹ تھی یا اسلامی، اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے تھا، مگر ہم نے اُس حکومت کے خلاف اپنے جہادی تیار کئے اور افغانستان پر چڑھ دوڑے۔اور آج یہ حال ہے کہ ہم افغانیوں کو ’’نمک حرام‘‘ کہہ رہے ہیں، اُن لوگوں کو جن کی تین نسلیں جنگ کی نذر ہوچکی ہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے۔ افغانستان کی جنگوں میں پاکستان کا کردار ثانوی رہا ہے، اصل جنگی مجرم سوویت یونین اور امریکہ ہیں، مگر افغانیوں کی جو نفرت ہمارے لئے ہے وہ اِن دونوں ممالک کے لئے نہیں۔ ایک درخواست مجھے اپنے لبرل دانشور دوستوں سے بھی کرنی ہے کہ ٹھیک ہے پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی اور یہی افغانیوں کی نفرت کی وجہ ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانی ہمیں گندی گالیاں دیں اور ہم خندہ پیشانی سے سُن کر کہیں کہ برادر بات تو ٹھیک کر رہا ہے۔ ہر معاملے میں پاکستان کو سوفیصد قصور وار سمجھنا اور اپنے ہی ملک پر لعن طعن شروع کردینا بھی درست رویہ نہیں۔ذاتی زندگی میں اگر کوئی کسی کو بے غیرت کہے اور وہ شخص حقیقت میں بے غیرت بھی ہو تو وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے بھائی نے بات تو ٹھیک کی ہے ، مجھے اِس کا منہ چوم لینا چاہئے۔

یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ امریکہ، سوویت یونین، طالبان، افغانی جنگجوؤں اور افغانیوں کی انقلابی جماعت سمیت کوئی بھی دودھ کادھلا ہوا نہیں ہے، سب کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، لہٰذا صرف پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ افغان بھائیوں کو میرا مشورہ ہے کہ جس طرح آپ ہمارے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہیں اگر اِس آزادی اظہار کا استعمال اپنی استبدادی حکومت کے خلاف کریں تو شاید آپ کے ملک کا کچھ بھلا ہوجائے!

Back to top button