ٹرمپ کی امن انعام  کیلئےنامزدگی پرپاکستان سفارتی شرمندگی کاشکار

معروف مصنف اور لکھاری محمد حنیف نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ آور ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ کیلئے عالمی امن انعام کی نامزدگی کا فیصلہ اس حکومت نے کیا ہے جو ایک ہائبرڈ نظام کے تحت ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نیچے لگ کر حکومت چلا رہی ہے لہذا اس سے ایسے ہی فیصلے کی امید کی جا سکتی تھی۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کئی کتابوں کے مصنف محمد حنیف کہتے ہیں کہ ہماری جس حکومت نے ٹرمپ کو اس انعام کے لیے نامزد کیا ہے وہ سینے پر ہاتھ مار کر خود کو ہائبرڈ نظام کا حصہ کہتی ہے۔ اس کا سلیس اردو میں مطلب یہ ہے کہ آپ الیکشن کراتے رہیں، ووٹ ڈلواتے رہیں، اسمبلی میں بیٹھ کر تنخواہ لیتے رہیں، ایک دوسرے کو چٹکلے سناتے رہیں، عدالتوں میں اپیل پر اپیل کرتے رہیں لیکن آپ کی قسمت کے فیصلے بند دروازوں کے پیچھے ہی ہوں گے کیونکہ اگر امریکہ آ گیا تو بہت مارے گا، اس لیے عوام کو بھی یہی کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ ہماری ہی مار سہہ لو۔ چنانچہ اگر صبر کا کوئی عالمی انعام ہوتا تو پاکستانی عوام کو ہر سال ملتا۔

محمد حنیف کہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کے جن سیانوں نے اپنے تئیں ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر کے اپنی طرف سے ایک سفارتی چال چلی انھیں علم تو ہو گا کہ دو نوبیل انعام دو پاکستانی پہلے ہی جیت چکے ہیں۔ پہلے ڈاکٹر عبدالسلام تھے جو اتنے کٹر پاکستانی تھے کہ اپنی زیادہ تر عمر یورپ میں گزاری لیکن مرتے دم تک پاکستانی پاسپورٹ کو دل سے لگا کر رکھا۔ جو ہر صبح قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے اور ریڈیو پاکستان کی بین الاقوامی نشریات سنتے تھے۔ وہ جب اپنے نوبیل انعام کی تقریب میں شریک ہوئے تو شیروانی، کھسہ اور پگڑی پہن کر اپنے پاکستانی پنجابی کلچر کی نمائندگی کی۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے وطن کی مٹی میں دفن ہوئے۔

حنیف کے بقول ہمیں ان کی فزکس کے میدان میں تحقیق سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں ان کی پاکستان سے پکی محبت کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں ان کے ایمان سے مسئلہ تھا اور یہ مسئلہ ان کی موت کے بعد بھی حل نہیں ہوا اور ڈاکٹر عبدالسلام کے اپنی ہی وطن عزیز میں ان کی قبر بھی محفوظ نہیں۔

اسی طرح ملالہ یوسفزئی امن کا نوبیل انعام جیتنے سے پہلے قوم کی آنکھوں کے سامنے بچی تھی جس پر ہمیں شک تھا کہ یہ مغرب کی کٹھ پتلی ہے۔ جب طالبان نے اس کو بلاک کرنے کی کوشش کی تو یہ شک یقین میں بدل گیا۔ پر وہ اپنی زندگی سمیٹ کر مغرب میں بس گئی، نوبیل امن انعام ملا، پوری دنیا میں سلیبرٹی بن گئی۔

لیکن اب ہمیں نہ اس کے انعام سے غرض ہے، نہ اس کے کام سے۔ بس ملالہ قوم کی غدار ٹھہری۔ اب بھی پاکستان میں، دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ہو تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ دیکھا ملالہ اس۔پر پھر نہیں بولی۔

ہم نے تو جب بچی تھی تب ہی یہ بتا دیا تھا کہ یہ چھوٹی سی غدار ہے، اور بڑی ہو کر بڑی غدار بنے گی۔

محمد حنیف کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کے لیے نوبیل انعام جیتنے والے تو منظور نہیں لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ امن انعام کا اصل حقدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ وہ کہتا ہے ایک نہیں مجھے تو چار، پانچ انعام ملنے چاہییں لیکن مجھے نہیں ملے گا کیونکہ میں لبرل نہیں ہوں۔ پاکستان اس لیے چاہتا ہے کہ انھیں یہ انعام ملے کیونکہ انھوں نے انڈیا، پاکستان کشیدگی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ میرا خیال ہے اس لیے بھی کیونکہ ٹرمپ نے پاکستان کا نام پندرہ مرتبہ لیا ہے، آئی لو یو پاکستان بولا ہے، ہمارے فیلڈ مارشل کو ظہرانے پر بلایا ہے۔ انکی عزت بھی کی ہے اور بے شمار تعریف بھی کی ہے۔ بند کمروں کے پیچھے ہونے والے ٹرمپ کی نامزدگی بارے ہمیں نہیں بتایا گیا لیکن جس دن پاکستان نے سرکاری طور پر ٹرمپ کو امن کی علامت کہا اس کے چند دن بعد ہی اس نے ہمارے بردار اسلامی ملک اور ہمسائے ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کے بہانے سے بنکر بسٹر لیس بھاری بم گرا دیے۔

اب ہم ایک دن ٹرمپ کو امن کے انعام کے لیے نامزد کریں گے اور اگلے دن اس کے شکار ہونے والوں کو دلاسہ بھی دیں گے۔ ایک ہاتھ ظالم کے کندھے پر اور دوسرا ہاتھ مظلوم کے ہاتھ میں۔

لیکن حنیف کہتے ہیں کہ یہ دنیا کسی بزرگ ادیب کے ہاتھوں لکھی تحریر نہیں ہے۔ ریاست کو اپنی بقا کے لیے دو رُخی پالیسی اپنانی پڑتی ہے۔ ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو ہمارا حال وہی ہوتا جو عراق، شام اور لیبیا کا ہوا۔ کوئی دن آنا ہے کہ ہمیں بتایا جائے گا کہ اگر ہماری یہ پالیسی نہ ہوتی تو ہمارا حال بھی وہی ہوتا جو ایران کا ہوا۔ نوبیل انعامات مغرب کے ہیں، فیصلے بھی وہیں ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کو دیں یا نہ دیں سابق امریکی صدر اوبامہ کو دے چکے ہیں جس نے اپنے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں کئی ملکوں پر ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ڈرون حملوں کا حکم دیا۔ ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل تھا۔

حنیف کہتے ہیں کہ امن کا نوبیل انعام بعض دفعہ ان خواتین کے حصے میں بھی آتا ہے جن کو امریکہ آزاد کرانے نکلا تھا۔ ایک ایرانی اور عراقی خاتون کو یہ انعام مل چکا ہے۔ ان کے مطانق مجھے علم نہیں پاکستانی حکام نے یہ سوچا کہ نہیں کہ کل کلاں یہی انعام، بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے تحریک چلاتی سمی دین بلوچ یا ماہ رنگ بلوچ کو مل گیا تو انھیں کون سی جیل میں ڈالنا ہو گا۔

Back to top button