اسرائیل امارات امن معاہدے کی حمایت کےلیے سعودیہ کو منانے کی کوششیں تیز

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد کئی خلیجی ممالک نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے تاہم سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کہا گیا ہے کہ جب تک فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ تاہم ایک امریکی جریدے کی جانب سے اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کےلیے سعودی عرب کو قائل کرنے کےلیے بھرپور کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔
امریکی حکام اس کوشش میں ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل امارات امن سمجھوتے کی حمایت میں بیان دلوایا جائے۔ اسرائیل اور امارات کے درمیان کمرشل فلائٹس کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے، جس کےلیے اسرائیل کی جانب سے سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ اس کے طیاروں کو امارات پہنچنے کےلیے سعودی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس بارے میں سعودی حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
اگر سعودی عرب اسرائیلی طیاروں کو امارات جانے کےلیے اپنی پروازوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا تو ایسی صورت میں اسرائیلی طیاروں کو یمن اور خلیج فارس کا لمبا چکر کاٹ کر امارات پہنچنا پڑے گا جس میں وقت اور ایندھن کا کافی ضیاع ہو گا۔سعودی عرب کواسرائیل کےلیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے کےلیے بھی قائل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکی جریدے کے مطابق صدر ٹرمپ کے دامادجیرڈ کُشنر دیگر عہدے داروں کے ہمراہ اگلے ہفتے خلیجی ممالک کے خصوصی دورے پر پہنچ رہے ہیں، جس دوران وہ اسرائیل کا دورہ کرنے کے بعد اسرائیلی پرواز کے ذریعے متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ امریکی اعلیٰ سطحی وفد بحرین، قطر، مراکش اور سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ یہ امریکی وفد دیگر ممالک کے فرمانرواؤں سے ملاقاتیں کرکے انہیں بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو بھی اس وقت بحرین میں ہیں۔