چھ مہینے میں پاکستان کا تجارتی خسارہ دوگنا کیسے ہوا؟

ایک جانب عمران حکومت کی جانب سے ملکی برآمدات میں اضافے کو بیرونی تجارت کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے مگر دوسری جانب تلخ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان کا تجارتی خسارہ سو فیصد بڑھ گیا ہے جس کے ملکی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تجارتی خسارے میں گذشتہ دو سال سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب یہ خسارہ دوگنا ہونے کی بڑی وجہ ملکی درآمدات میں 60 فیصد اضافہ اور برآمدات میں مسلسل کمی ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 6 مہینوں میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 25 ارب ڈالرز تھا جو سال کے اختتام پر 40 سے 50 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے جو پاکستان کے لیے بہت الارمنگ صورت حال ہو گی۔ پاکستان کے تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہے اور اس کے باعث رقم کے حصول کے لیے اسے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے پروگرام ہے جو کہ اپنی سخت ترین شرائط کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی کی لہر کو جنم دے چکا ہے اور عوام جھولیاں اٹھا اٹھا کر حکومت کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ان شرائط کے تحت حال ہی میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ کے باعث مزید مہنگائی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

طالبان پاک افغان سرحد پر لگی باڑ کیوں اکھاڑ رہے ہیں؟

معاشی ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالییسوں اور مرکزی بینک کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں تجارتی خسارے میں 100 فیصد اضافے کی وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا دو گنا سے سے بھی زیادہ شرح سے بڑھنا ہے۔ ان 6 مہینوں میں اگر برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا تو اس کے مقابلے میں درآمدات میں ہونے والا اضافہ 63 فیصد رہا۔

پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ پیٹرولیم، آٹو موبائل اور کھانے پینے کی اشیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے ہوا ہے، خصوصا پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمتوں نے ملکی درآمدات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم درآمدات میں ہونے والا اضافہ بہت زیادہ ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اسکے علاوہ پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات نے تجارتی خسارے کو بڑھانے میں کردار ادا کیا، تاہم اس کے ساتھ مشینری کی درآمد کا بھی اس میں ایک بڑا حصہ ہے جو پیداواری شعبے میں توسیع کے لیے منگوائی جا رہی ہے۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ پر بہت زیادہ دباؤ ہے جو موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں سات ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں برآمدات، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے تحت آنے والے ڈالروں کو اکٹھا کر کے دیکھا جاتا ہے کہ ان سے حاصل ہونے والے مجموعی ڈالر بیرون ملک درآمدات اور قرضے کی ادائیگیوں کی صورت میں جانے والے ڈالروں کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں۔ اگر کم ڈالر آ رہے ہیں اور زیادہ جا رہے ہیں اور تو اس کا مطلب ہے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہے جس کے ملکی میعیشت پر سخت منفی اثرات پڑتے ہیں۔

Back to top button