انٹرا پارٹی الیکشن تحریک انصاف کے باقاعدہ منتشر ہونے کا آغاز ہیں؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار ، عمران خان کے قریبی عزیز اور سابق ساتھی حفیظ الله خان نیازی نے کہا ہے کہ عمران خان کی یہ بد قسمتی ہے کہ ان کی سیاست کا استعمال ان کی ذات کے علاوہ تحریک انصاف میں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کے حکم پر ہونے والا انٹرا پارٹی الیکشن ، … تحریک انصاف کے باقاعدہ منتشر ہونے کا رسمی آغاز ہو گا، اپنے ایک کالم میں حفیظ الله نیازی کا کہنا ہے کہ عمران خان کو کسی ایسے سیاسی مستقبل سے دلچسپی نہیں جہاں اُنکی ذات مبارکہ پوری شدومد سے موجود نہ ہو۔ میں اس بات سے متفق نہیں کہ عمران خان کا موروثی سیاست سے اجتناب کسی اصول یا ضابطے پر مبنی ہے۔ عمران خان کا پہلا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کا موثر حصہ شیش محل میں گزرا، سوائے اپنی شکل کے کبھی کچھ دیکھ نہیں پائے، اپنے علاوہ کسی دوسری ذات میں دلچسپی نہیں لی ۔ دوسرا المیہ یہ رہا کہ ان کا سیاست میں آنا انتہائی مجبوری ضرور تھی مگر حکومتی اسرار و رموز اور سیاسی باریکیوں سے وہ نابلد تھے۔ زندگی بھر نہ کسی تنظیم کا حصہ رہے نہ اس کا تجربہ تھا اور نہ ہی ایسی صلاحیت کی افزائش ہو پائی۔ سیاست ایک ایسی سائنس ہے جہاں سیاسی کیڑا ’’آئیڈیلزم‘‘ کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ آئیڈیل‘‘ کے بغیر سیاست تفریحِ طبع اور گلیمر کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ آئیڈیلزم ہمیشہ نظریہ یا کسی مقصد کا محتاج ہوتا ہے۔ نظریاتی سیاست بندے کی ذات کو منہا رکھتی ہے جبکہ عمران خان کی سیاست ذات کے گرد گھومتی ہے۔ حفیظ الله نیازی بتاتے ہیں کہ 10 اکتوبر 2022 کو عمران خان نے میانوالی سے اکلوتی نشست جیتی تو انکی سیاست کو جیسے ’’تنکے کا سہارا‘‘ مل گیا۔ وہ 1996 میں سیاست میں وارد ہوئے تو سیاسی پذیرائی نہ مل سکی۔ اگرچہ 1992 کا ورلڈ کپ اور 1994 شوکت خانم ہسپتال جیسے کارنامے موجود تھے مگر عمران اپنا اثر نہ جما سکے۔1997 اور 2002 کے الیکشن میں انہیں ایسی تضحیک آمیز شکست ہوئی کہ ان کا سیاسی وجود بن کھلے مرجھانے کو تھا ۔ عمران کو دونوں الیکشن میں ’’آدھا فیصد‘‘ کے لگ بھگ ووٹ پڑے ہونگے ۔ ایسے موقع پرایک نشست کی جیت عمران خان کی ڈوبتی سیاست کیلئے گویا کہ ’’شہتیر کا سہارا‘‘ بنی۔ اس جیت کو یقینی بنانے کیلئے مجھے ایک سال میانوالی منتقل ہونا پڑا۔ وہاں طلبہ سیاست سے حاصل تربیت اور تجربہ انتخابی مہم اور کارکنوں کو منظم کرنے میں استعمال کیا ۔ عمران خان کے’’قومی ہیرو امیج‘‘ کی پذیرائی میانوالی میں کچھ زیادہ تھی۔ البتہ سرزمین میانوالی سے تعارف واجبی سے بھی کم تھا۔ میانوالی سے تعلق اور دھرتی کے سپوت کا امیج پروموٹ اور مستحکم کیا۔ جب میانوالی کی نشست جیتے تو عمران کیلئے ناقابل یقین تھا۔ بعد ازاں عمران متعدد موقعوں پر میانوالی کی جیت کو اپنی سیاسی زندگی کا اہم سنگ میل قرار دیتے رہے۔ آنیوالے دنوں میں سیاسی وجود ایک نشست کی جیت کو قرار دیتے۔

حفیظ الله نیازی بتاتے ہیں کہ میں نے عمران خان کو اسلامی اور کمیونسٹ تحریک کے تناظر میں بتایا کہ ’’پاکستانی‘‘ سیاست کے دو ماڈل ہیں ایک جماعت اسلامی اور دوسرا بھٹو کی پیپلز پارٹی، بلاشبہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہے مگر بد قسمتی سے مقبول سیاسی حمایت سے تہی دامن ہے جبکہ پیپلز پارٹی واجبی تنظیم کیساتھ عوامی جماعت ہے۔ میری سکہ بند رائے یہ تھی کہ ، جماعت اسلامی کی مقبولیت میں منظم تنظیمی نظام حائل ہے۔ جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی مقبول سیاست موثر تنظیم میں رکاوٹ ہے۔ بد قسمتی سے آج عمران خان کی مقبول سیاست منظم یا نیم منظم سیاسی پارٹی سے کوسوں دور ہے ۔ عمران کی ایک بد قسمتی اور بھی ہے کہ ، انکی سیاست کا استعمال ان کی ذات کے علاوہ تحریک انصاف میں اور کوئی نہیں کر سکتا۔ عمران خان نے احتیاط سے پارٹی کو ایسے استوار کیا ہے کہ انکی ذات کو منہا کریں تو پارٹی ناقابل استعمال رہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد، تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے حکم پر پارٹی الیکشن کا جو انعقاد کر رہی ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے باقاعدہ منتشر ہونے کا رسمی آغاز ہو گا۔

Back to top button