18 سال کی عمر میں لازمی شادی کرانے کا بل تنقید کی زد میں

’18 برس کی عمر میں شادی سے معاشرتی خرابیوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ جلدی شادی سے معاشرے میں غیر اخلاقی سرگرمیوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔‘
یہ الفاظ سیاسی پارٹی ’جماعت اسلامی‘ کے ایک رکن سید عبدالرشید کے ہیں، جو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے ’سندھ لازمی شادی ایکٹ 2021‘ کے عنوان سے سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا ہے۔
اس مجوزہ بل کے ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ والدین 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے اپنے بچوں کی لازمی شادی کروائیں اور اگر والدین ایسا کرنے میں تاخیر کرتے ہیں تو وہ ضلعی انتظامیہ کو ٹھوس وجوہات کے ساتھ تحریری طور پر آگاہ کریں۔اس مجوزہ بل کے ڈرافٹ کو صوبائی اسمبلی میں جمع کروائے جانے کے بعد اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد معاشرتی خرابیاں، بچوں کے ساتھ ریپ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا سدباب کرنا ہے۔
یہ بل نجی حیثیت میں جمع کروائے جانے والا بل ہے اور قوی امکان یہی ہے کہ متعدد پرائیویٹ ممبرز بل کی طرح شاید یہ منظوری کے ابتدائی مرحلے تک نہ پہنچ پائے۔
تاہم ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں ایک جانب اس پر تنقید ہو رہی ہے وہیں کئی صارفین یہ پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ آخر جلدی شادی سے ریپ کے واقعات کو کم کرنے کی کیا منطق ہے؟
ایک صارف نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا: ‘مجھے یقینِ کامل ہے کہ 70 فیصد ریپ شادی شدہ مرد کرتے ہیں۔’ تاہم انھیں اتنا یقین کیوں ہے اس کا کوئی ثبوت انھوں نے پیش نہیں کیا، مگر یہ ان کی رائے ہے۔
نازش بروہی نے لکھا ’ایسے کچھ لوگ ہوں گے جو سمجھتے ہیں کہ اس سے (بل کے پاس ہونے سے) ریپ میں کمی آئے گی۔‘
بہت سے صارفین اسمبلی کی کارروائی سے ناواقف ہونے کے باعث اس بل کی بنیاد پر سندھ حکومت پر تنقید کرتے نظر آئے۔ سندھ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے بعد بختاور بھٹو زرداری نے وضاحت دی کہ ’یہ بل جماعت اسمبلی کے ممبر صوبائی اسمبلی نے تجویز کیا ہے اور پی پی پی اسے بلڈوز (مسترد) کر دے گی۔‘
لڑکے لڑکیوں کی جلد شادی سے ریپ کے واقعات میں کمی لانے کے نقطہ نظر کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیم ’وار اگینسٹ ریپ‘ یعنی ریپ کے خلاف جنگ) سے وابستہ سدرہ ہمایوں نے کہا کہ ’ریپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک تشدد ہے جبکہ شادی ایک بہت مقدس اور پیارا رشتہ ہے۔‘وہ کہتی ہیں ’شادی میں بیشتر لوگوں کو فوری طور پر سیکس کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے تو وہ فوری طور پر شادی کو سیکس اور ریپ کو جوڑ لیتے ہیں لیکن یہ دونوں بہت مختلف چیزیں ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ شادی میں بھی جسمانی تعلق قائم ہوتا ہے اور ریپ میں بھی جسمانی تعلق قائم ہوتا ہے تو لہذا یہ ایک ہی چیز ہے۔‘’یہ بالکل ایک چیز نہیں بلکہ ریپ تشدد ہے۔ جو پُرتشدد ذہن ہو گا، وہ کسی پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے گا۔ شادی اور ریپ کو ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا اور اس غلط فہمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
سدرہ کہتی ہیں کہ اس بات کا بھی آپس میں کوئی جوڑ اور تعلق ہی نہیں کہ شادی کر دینے سے معاشرے میں موجود جنسی تشدد کم ہو جائے گا۔وہ کہتی ہیں کہ ’ایک مائنڈ سیٹ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جنسی تعلق قائم کرنے سے معاشرے میں بے راہ روی کم ہو جائے گی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’میرے سے ہزاروں ایسے خاندان رابطہ کرتے ہیں جن میں شوہروں کو پورنوگرافی دیکھنے کی شدید عادت ہوتی ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طور پر بھی بجا نہیں کہ جلدی شادیاں بے راہ روی کو روکیں گی۔ شادی اگلی نسل کی پرورش کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ سیکس کا تعلق قائم کرنے کے لیے۔‘
غیر سرکاری تنظیم ’سرچ فار جسٹس‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر افتحار مبارک نے اس بارے میں بی بی بسی اردو کو اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں جنسی زیادتی اور ریپ جیسے واقعات کو روکنے کی یہ کوئی سود مند تکنیک نہیں۔انھوں نے لاہور موٹروے ریپ کیس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ریپ کرنے والا شادی شدہ تھا۔انھوں نے کہا کہ اس بل کو تجویز کرنے والے رکن اسمبلی سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے دنیا کے کس حصے میں یہ دلیل، منطق یا کوئی تحقیق دیکھی ہے کہ نوجوانوں کی جلد شادی سے ریپ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
افتحار مبارک نے کہا کہ بچوں کو ریپ جیسے تلخ تجربے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں حکومتی سطح پر کوئی واضع حمکت عملی ترتیب دی جائے۔’اس معاملے پر وزیراعلیٰ کے لیے خصوصی مشیر ہونا چاہیے، بچوں کے لیے قانونی چارہ جوئی کا نظام ہونا چاہیے، ایسا واقعہ ہو جانے کی صورت میں بچوں کی نفسیاتی مدد کا نظام ہونا چاہیے۔‘انھوں نے سید عبدالرشید کے بیان کو جلد بازی میں دیا گیا بیان قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ریپ کو روکنے کے لیے جلدی شادی کی تجویز کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں۔
’وار اگینسٹ ریپ‘ کی سدرہ ہمایوں نے کہا کہ ’پاکستان میں 18 سال کے بچوں کو یہ ذہنی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ جلدی شادی کر کے سیکس کرنے کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ وہ یہ سوچیں کہ انھوں نے سائنسدان بننا ہے، انجینئیر بننا ہے اور انھوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا ہے۔‘وہ کہتی ہیں ’ہمیں اس چیز کو اپنی عورتوں کی ذہنی تربیت اور مردوں کے جسمانی اور ذہنی رویوں میں شامل کرنا ہو گا۔‘
اس بل پر تنقید کرتے ہوئے منصف نامی صارف نے لکھا کہ پتا چلا ہے کہ 18 برس کی عمر میں شادی کا بل آیا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ شاید ہم ملک سے دوسرے تمام مسائل کا خاتمہ کر چکے ہیں جو اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے۔ ’یہ راز ہے کہ ان کا دماغ ایسے کیسے کام کرتا ہے۔‘
اس حوالے سے جاری ویڈیو پیغام میں سید عبدالرشید نے کہا تھا کہ کمپلسری میرج ایکٹ 2021 کے نام سے بل کا مسودہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرایا ہے اور میری دعا ہے کہ یہ بل منظور ہوجائے۔انہوں نے کہا تھا کہ سندھ کے نوجوانوں کی ترقی، خوشحالی اور ان کے لیے فلاح اور اصلاح کے راستے کو ہموار کروانے کے لیے اسمبلی کے تمام اراکین اسے منظور کروائیں۔سید عبدالرشید نے کہا تھا کہ معاشرتی خرابیاں اور بچوں کے ساتھ ریپ، غیراخلاقی سرگرمیوں کے بڑھتے رجحانات کے لیے مسلمان بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے بعد اسلام نے شادی کا حق دیا ہے۔
مذکورہ مجوزہ بل کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اکثر صارفین نے اسے ‘مضحکہ خیز ‘ قرار دیا۔
صحافی اور فلم ساز منیزے جہانگیر نے اس خبر کو ‘دلچسپ’ قرار دیا۔
جس پر ایک صارف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اس طرح کے بل دانستہ طور پر اسمبلیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس بل کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلیوں میں اور سڑکوں پر موجود افراد کے مابین تعلق نہ ہونے کی مثال ہے۔
دیگر صارفین نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
سیاستدان اور سماجی کارکن جبران ناصر جو صوبے میں اقلیتی برادری سے وابستہ لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں انہوں نے اس بل پر مایوسی کا اظہار کیا۔جبران ناصر نے لکھا کہ یہ مجوزہ بل صرف مسلمانوں کے لیے ہے کیونکہ ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو کم عمری میں شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
نادیہ نامی صارف نے اس مجوزہ بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس مسئلے کو مؤثر انداز میں حل نہیں کرتا جو یہ بظاہر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس دوران انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے گئے جبکہ اسی معاملے پر کئی میمز بھی وائرل ہوئیں۔
کچھ نے دعویٰ کیا کہ بل پاس پوگیا، دیگر نے کہا کہ اس بل کی حمایت حکومت کررہی ہے تاہم یہ سب غلط معلومات ہیں اور ابھی صرف بل کا مسودہ جمع کرایا گیا ہے اور اس کے منظور ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
دیگر صارفین نے اس مجوزہ بل کے حوالے سے افواہوں اور میمز کی وجہ سے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ بل پیش ہوا ہے اور شاید ہی منظور ہو۔
بختاور بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی اور لکھا کہ یہ بل جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی نے پیش کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی اسے ‘کچل’ دے گی۔
ایک صارف نے کہا کہ پاکستان میں 18 برس کے افراد کو کورونا ویکسین کے لیے رجسٹر کروانے کی اجازت نہیں ہے لیکن انہیں فوری طور پر شادی کرلینی چاہیے۔
ایک اور صارف نے کہا کہ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو سب سے پہلے بلاول بھٹو کو جرمانہ ہونا چاہیے۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ سیدعبدالرشید سندھ اسمبلی میں اپنی جماعت کے واحد رکن ہیں اور یہ اسپیکر اسمبلی کا اختیار ہے کہ وہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔اگر اس بل کو پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس پر رائے شماری ہوگی اور اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں یہ بل منظور ہو کر قانون کی صورت اختیار کرے گا۔چونکہ سید عبدالرشید ایم ایم اے کے رکن ہے تو اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ انہیں بل کی منظوری کے لیے اراکین کی حمایت حاصل ہوگی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہی ہے اور 2019 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل بھی منظور کیا تھا۔

Back to top button