غیر قانونی مقیم افغانوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز ہو گیا

افغان مہاجرین کی رضاکارانہ افغانستان واپسی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد افغانوں کے خلاف سخت سرچ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت نہ صرف پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغانوں کو گرفتار کر کے ملک بدر کیا جائے گا بلکہ ایسے افغانوں کو پناہ دینے والے سہولتکاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق افغان مہاجرین کی ملک بدری کے حوالے سے ملک کے بعض حصوں میں سرچ آپریشن جاری ہے جس میں 5 قانون نافذ کرنے والے ادارے حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم آئندہ 24 سے 48 گھنٹے میں سرچ آپریشن میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران پہلے مرحلے پر غیر قانونی مقیم افغانوں کو نوٹس جاری کر کے 24 گھنٹوں کی مہلت دی جائے گی جبکہ رضاکارانہ طور پر واپس نہ جانے والے افغانوں کا جہاں کاروبار ضبط کر لیا جائے گا وہیں انھیں گرفتار کر کےملک بدر کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اب تک درجنوں افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے کیمپوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ افغان مہاجرین سے رشتہ کرنے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا بھی مرتب کر لیا گیا ہے جبکہ جن سرکاری ملازمین پر افغان مہاجر ہونے کا شبہ ہے، ان کے خلاف بھی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں اور جلد کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کیخلاف کارروائیاں شروع ہونے کے بعد پاکستان میں مقیم بڑے بڑے افغان سرمایہ دار منظر سے غائب ہو گئےہیں اور کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلسل اپنی جگہ بدل رہے ہیں۔ تاہم پولیس سمیت سیکورٹی اداروں نے ان کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی ہے۔ ان کا تمام ڈیٹا حکومت، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے پاس موجود ہے۔ جن کو جلد قانون کی گرفت میں لاکر ملک بدر کر دیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی افغان مہاجرین کیخلاف آپریشن بلا تفریق کیا جارہا ہے۔ جبکہ اگلے 48 گھنٹوں میں آپریشن مزید تیز کیے جانے کا امکان ہے۔ پولیس سمیت دیگر اداروں نے تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی ہے اور اب صرف گرفتاریاں عمل میں لانے کا مرحلہ باقی ہے۔ جس کے حوالےسے تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔
حکام کی جانب سے افغان خاندان کو کیمپوں تک باعزت طور پر پہنچانے اور کیمپوں میں خوراک سمیت پانی، ادویات اور دیگر ضروری سامان مہیا کرنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔ جبکہ متعلقہ علاقوں کے عوام سے بھی اپیل کی جا رہی ہے کہ اپنے اردگرد بسنے والے افغان مہاجرین کے بارے میں قریبی پولیس تھانے کو اطلاع دیں۔ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں افغان مہاجرین عرصہ دراز سے مقیم ہیں اور ہندکو سمیت پشتو اور اردو بھی روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔ لباس وغیرہ بھی پاکستانیوں اور پشاوریوں کی طرح ہی پہن رہے ہیں۔ جن کی پہچان انتہائی مشکل ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں پولیس نے اطلاع دینے کیلئے عوام سے اپیل کی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر 69 ہزار 494 خاندان واپس جاچکے ہیں۔ جن میں ایک لاکھ 57 ہزار 513 مرد، ایک لاکھ 11 ہزار 387 خواتین اور ایک لاکھ 97 ہزار 821 بچے شامل ہیں۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق افغانستان واپس نہ جانے والےافغانوں کے کاروبار سیل کئے جانے کا امکان ہے، کیونکہ دکانوں سمیت تمام کاروبار کا ڈیٹا حکومت نے اکھٹا کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیشتر افغان باشندوں نے ڈیڈ لائن میں توسیع کے انتظار میں تاحال اپنا کاروبار ابھی تک ختم نہیں کیا تاہم اب حکومت نے ایسے افغانوں لے کاروبار سیل کرنے اور سامان کو ضبط کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور8 لاکھ سے زائد افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز مقیم ہیں۔ جبکہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جن کی واپسی میں وقت لگ سکتا ہے۔ پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18ماہ میں 8 لاکھ 45 ہزار افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں 30 لاکھ افغان موجود ہیں۔ ان میں سے 13 لاکھ 44 ہزار 584 افراد کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت کارڈز ہیں جبکہ 8 لاکھ 7 ہزار 402 افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈز ہیں۔
افغانستان سے غیر ملکی اسلحہ اب بھی پاکستان کیسے سمگلنگ ہو رہا ہے ؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں ایسے افغان موجود ہیں جو دیہاڑی پر مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ عید الفطر کے بعد اپنے وطن واپسی کیلئے کسی کیمپ کا رخ کریں گے۔ تاہم انہوں نے دوبارہ سے تجارتی مراکز میں محنت مزدوری کرنا شروع کر دی ہے اور ایسے افغانوں کو تجارتی مراکز میں دیکھا بھی جارہا ہے۔ جبکہ حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی واپسی کیلئے سخت ترین اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور پشاور سے دیگر اضلاع کو جانے والی ٹرانسپورٹ سمیت ملک کے مختلف حصوں کو سفر کرنے والے مسافروں کے قومی شناختی کارڈ دیکھ کر ہی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اسی طرح پنجاب سے بھی اطلاعا ت موصول ہورہی ہیں کہ قومی شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو بھی سفر کی اجازت نہیں ہے۔ میٹرو بس سروس سمیت اورنج لائن ٹرین میں بھی ٹکٹ حاصل کرنے والے افراد اپنا قومی شناختی کارڈ دکھا رہے ہیں۔ جبکہ تفریحی مقامات پر جانے والے افراد سے بھی قومی شناختی کارڈ طلب کئے جارہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بسنے والے یا روپوش ہونے والے افغانوں کے بارے میں اطلاع دیں تاکہ ان کو قانونی اور باعزت طریقے سے واپس اپنے وطن بھیجا جائے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے افغانوں کی واپسی ہورہی ہے اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ان کی واپسی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ واپسی کے عمل میں تیزی لانا چاہتی ہے تو فوری طور پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔