عمران کے زہریلے سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کر دینے چاہئیں

 

 

 

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ایک بڑا سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر معطل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو جیل میں تمام بنیادی حقوق دیئے جائیں، انکی بشریٰ بی بی سے خلوت میں ملاقاتوں کا اہتمام بھی کروایا جائے مگر یاد رکھیں کہ انکے سوشل میڈیا اکائونٹس بہت بڑا سیکورٹی رسک ہیں۔ لہذا ایکس اور میٹا سے مطالبہ کیا جائے کہ جب تک عمران خان جیل میں ہیں انکے فوج مخالف زہریلے سوشل میڈیا اکائونٹس معطل کر دیئے جائیں۔

 

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں بلال غوری کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں قیدیوں کے حقوق زیر بحث آتے ہیں۔ اسیری کے دوران انکی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران اس حوالے سے ایک پیشرفت یہ ہوئی کہ قیدیوں کو اپنے شریک سفر کیساتھ خلوت میں وقت گزارنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی قیدیوں کو اپنے شریک حیات کے حقوق ادا کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ پاکستان میں بھی کئی مرتبہ اس سہولت کا آغاز کیا گیا مگر حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یہ پالیسی متعارف کروائی کہ اگر کسی شخص کو پانچ سال یا اس سے زیادہ سزا ہوئی ہے تو وہ اپنے اہلخانہ کیساتھ سال میں تین مرتبہ فیملی روم میں وقت گزار سکتا ہے۔ ہر بار ملاقات کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ تین دن اور راتوں پر محیط ہوگا، قیدی خواتین کے شوہر یا مرد اسیران کی بیویاں ملاقات کی درخواست دے سکتی ہیں۔ اس دوران نہ صرف یہ کہ 6 سال سے کم عمر بچے اپنے والدین کیساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ قیدی اور اسکے اہلخانہ کو کھانا بھی حکومت کی طرف سے فراہم کیا جائیگا۔

 

بلال غوری کے مطابق ملاقات کی اس اجازت کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ اگر جرم ایک شخص سے سرزد ہوا ہے تو سزا پورے خاندان کو کیوں دی جائے۔ اسی طرح قیدیوں کو نہ صرف اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کرنے کی اجازت ہوتی ہے بلکہ اب ٹیلیفون پر بات کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے تمام جیلوں میں باقاعدہ ٹیلیفون بوتھ لگائے گئے ہیں۔ مگر ہر گزرتے دن کیساتھ قیدیوں کے حقوق کا شعور اور اِدراک بڑھتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک میں بحث ہو رہی ہے کہ قیدیوں کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنیکی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں۔

 

بلال غوری بتاتے ہیں کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں قیدیوں کو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس چلانے کی اجازت تھی۔ ٹیکساس کی ایک رہائشی کا بیٹا عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اسکی والدہ کئی سالوں سے اسکا فیس بک اکائونٹ چلارہی ہیں جس پر اسکی پرانی تصاویر، دوستوں کے پیغام اور نیک خواہشات شیئر کی جاتی ہیں تاکہ باہر کی دنیا سے اسکا رابطہ برقرار رہے۔ لیکن ان اکائونٹس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا، ہر پوسٹ اپ لوڈ کرنے کے لیے باقاعدہ تحریری طور پر جیل انتظامیہ سے اجازت لی جاتی ہے، لیکن پھر بھی امریکہ فیڈرل بیورو آف پرزن نے اس سہولت کو ختم کرنیکا فیصلہ کیا ہے کیونکہ قیدیوں کے ایما پر سوشل میڈیا اکائونٹس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں گزشتہ برس اس حوالے سے طویل بحث ہوئی کہ قیدیوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

 

بلال غوری بتاتے ہیں کہ انہوں نے تحقیق کے ذریعے یہ سراغ لگانے کی کوشش کی کہ کیا کسی ملک میں سزا یافتہ قیدی کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کرنیکی اجازت حاصل ہے۔ تاہم ایسی کوئی ایک بھی مثال نہیں مل پائی۔ یہ اعزاز وطن عزیز پاکستان کو حاصل ہے کہ عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں مگر انکے سوشل میڈیا اکائونٹس بدستور آزاد ہیں۔ آئے روز انکے ٹوئٹر ہینڈل اور فیس بک پیج سے زہریلے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ سب کیسے چل رہا ہے؟

 

سوال یہ ہے کہ کیا اڈیالہ جیل کی انتظامیہ نے عمران خان کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی سہولت دے رکھی ہے یا پھر بشریٰ بی بی کے جنات کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی ہے؟ یقیناً جیل سے ٹویٹ لکھ کر باہر بھیجنا ممکن نہیں تو کیا نعیم پنجوتھا، علیمہ خان یا کوئی اور ان کے پیغامات لیکر آتا ہے اور امریکہ پہنچاتا ہے جہاں جبران الیاس، اظہر مشوانی یا کوئی اور عمران کے نام سے بیان جاری کرتا ہے؟ بالفرض ایسا ہے بھی تو یہ خطرناک صورتحال ہے۔ دو افراد آپس میں بات کر رہے ہوں، آپ ان دونوں کو الگ کرکے پوچھیں کیا بات ہورہی تھی تو انکی بیان کردہ تفصیل مختلف ہوگی اور جب کوئی تیسرا شخص ،چوتھے اور پانچویں آدمی کو یہ پیغام پہنچائے گا تو بات یکسر تبدیل ہو جائیگی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عمران کے سوشل میڈیا اکائونٹس کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔ کوئی ’’رانگ نمبر‘‘ پھرکی لے رہا ہے اور لوگوں کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کا اکائونٹ ہیک کر لیا جائے، لہذا کیا اس صورت میں عمران کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے جاری ہونیوالے بیانات کو انکا موقف سمجھا جا سکتا ہے؟ انکے سوشل میڈیا اکائونٹس، جن پر پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے، سے لوگوں کو تشدد پر اُکسایا جاتا ہے کل کو 9 مئی 2023 جیسا واقعہ دوبارہ پیش آجائے اور ملک میں بدامنی پھیل جائے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟ عمران خان تو کہیں گے میں جیل میں تھا مجھے کیا معلوم کس نے میرے نام سے کیا ٹویٹ کردی۔ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے۔

 

بلال غوری کہتے ہیں کہ 26 مئی 2024 کو عمران کے ٹوئٹر اکائونٹ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے ایک فوج مخالف زہریلی ٹویٹ اور ویڈیو پوسٹ کی گئی جس پر بہت ہنگامہ ہوا۔ رئوف حسن اور علی محمد خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ عمران تو جیل میں ہیں لہذا انکا اس سے کوئی تعلق نہیں۔8 جون 2024 کو اڈیالہ جیل میں مقدمے کی سماعت کے دوران جب صحافیوں نے سوال کیا تو خود عمران خان نے بھی اسکی ذمہ داری قبول نہیں کی اور کہا کہ میں جیل میں بیٹھ کر کوئی ویڈیو کیسے اپ لوڈ کرسکتا ہوں۔ لہذا حاصل کلام یہ ہے کہ عمران کے زہریلے سوشل میڈیا اکائونٹس میڈیا اکاؤنٹ ملکی سالمیت اور سیکیورٹی کے لیے ایک بہت بڑا سکیورٹی رسک ہیں جنہیں فوری طور پر معطل کروا دینا چاہیے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!