فیض حمید تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل

کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے حکومت اور تحریک طالبان کے مابین مذاکرات میں شامل ہونے کے باوجود مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ 30 مئی کو جنگ بندی ختم ہونے کے بعد ہونے کا امکان ہے لیکن کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی حکام اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے رواں ماہ عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو 30 مئی تک جاری رہے گی۔ اس اہم پیش رفت کے بعد مذاکرات کے مزید ادوار بھی متوقع ہیں اور پاکستان کی کوشش ہے کہ جنگ بندی میں توسیع ہو جائے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حکام نے تحریک طالبان پاکستان کے دو اہم کمانڈرز کو رہا کرتے ہوئے افغان طالبان کے حوالے کردیا ہے جو کہ دونوں فریقین کے مابین مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اور اب تک دونوں اطراف کے درمیان کیا پیش رفت ہوئی ہے؟

واضح رہے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے لیے حالیہ مذاکرات افغانستان میں افغان طالبان کی ثالثی میں ہوئے جن میں قبائلی عمائدین اور ٹی ٹی پی کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں پاکستانی فوجی نمائندے بھی شامل تھے۔ طالبان کے ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ ان مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان فوج کی پشاور کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی کابل میں موجود تھے تاہم اس بارے میں پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے رابطے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات کا نیا دور گزشتہ سال فروری میں افغان طالبان اور قبائلی رہنماؤں کی ثالثی میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت پاکستانی طالبان نے تین سینیئر ارکان سمیت 100 سے زائد قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس دوران پاکستان حکومت نے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، باجوڑ، سوات، خیبر اور دیر سے ٹی ٹی پی کے تیس قیدیوں کو رہا کیا۔ حکومت پاکستان نے ان قیدیوں کی رہائی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔

مذاکرات میں شامل تینوں فریقوں کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر موقف سامنے نہیں آیا لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک اعلامیہ ضرور سامنے آیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے اعلامیے میں افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کے اعلان کے ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ پاکستان کے سرکاری وفد کے علاوہ محسود قبیلے اور ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف قبائل کی نمائندہ کمیٹیوں نے بھی حکومت پاکستان کے مطالبے پر تحریک طالبان پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی سے 13 اور 14 مئی کو ملاقاتیں کیں۔ جن میں مطالبہ کیا گیا کہ جب تک مذاکراتی کمیٹیاں بات کر رہی ہیں فریقین کو فائر بندی کرنی چاہیے۔ ٹی ٹی پی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد سے قیدیوں کی رہائی، وزیرستان اور سابقہ قبائلی علاقوں سے فوج کے انخلا، ماضی کی طرح مقامی ملیشیا کو سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی واپسی اور سابقہ قبائلی علاقوں کا نظام بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شرعی قانون کے نفاذ اور امریکہ میں سزا پانے والی پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے کچھ قیدیوں کی رہائی میں پیش رفت ہوئی ہے تاہم تین دیگر شرائط پر عمل در آمد کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ان میں سے دو اہم شرائط میں شرعی قانون کا نفاذ اور قبائلی علاقوں سے فوج کا انخلا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ 2009 میں سوات امن معاہدے اور مالاکنڈ میں شرعی نظام عدل بل کی منظوری کے بعد، جس نے سوات اور آس پاس کے علاقوں میں انتہا پسندی کو ہوا دی تھی، پاکستان کی حکومتیں اس معاملے ہر مذید کسی قسم کا سمجھوتا کرنے سے گریزاں رہی ہیں۔ ادھر پاکستان کی کوشش ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے، اپنی شرائط پر، ٹی ٹی پی کو کم سے کم رعایت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی کارروایاں ختم کر دیں۔

پاکستان کو اس وقت یہ فائدہ ضرور حاصل ہے کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوج کے انخلا اور انڈیا کے اثر و رسوخ میں کمی کے باعث کابل میں افغان طالبان کی شکل میں ایک ایسی انتظامیہ موجود ہے جو تعاون کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔ سابقہ قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آنے اور افغان سرزمین پر ان کے ٹھکانوں پر پاکستان کے فضائی حملوں کے بعد افغان طالبان ٹی ٹی پی کے معاملے میں مزید سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی فوج اب بھی افغانستان کی سرحد کے ساتھ سابق قبائلی علاقوں میں موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار قبائلی علاقوں میں فوج اتنی بڑی سطح پر موجودگی کو پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت سمجھتی ہے۔ ایسے میں ایک ممکنہ حل یہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اس بات پر تیار ہو کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ماضی کی طرح سیکیورٹی چوکیاں، تلاشی اور گشت کی ذمہ داری تو مقامی ملیشیا کو سونپ دی جائے لیکن فوج کی موجودگی مخصوص علاقوں اور اڈوں میں برقرار رہے۔

دوسری جانب افغان طالبان کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی ترغیب دیں اور آخر کار پاکستان اور قبائلی علاقوں میں ان کے حملے بند ہو جائیں۔ دوسرا راستہ اس صورت میں نکالنا ہو گا اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں افغان طالبان حکومت کے لیے ضروری ہو گا کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کے شمالی علاقوں یا ڈیورنڈ لائن یعنی پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے دور دراز علاقوں میں جانے پر مجبور کر دیں۔ ایسا ہی ایک مطالبہ برٹش انڈیا نے افغانستان کے سابق حکمرانوں سے بھی کیا تھا جب وزیرستان میں برطانیہ کے خلاف لڑنے والے زیادہ تر جنگجو اور قبائل افغانستان کے لویہ پکتیا کے علاقے میں رہتے تھے۔ اس علاقے سے قبائلی علاقوں میں رسائی حاصل کرنا، جنگجوؤں کو بھرتی کرنا اور ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف افرادی قوت تیار کرنا آسان تھا۔ لیکن جب ان جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان کے شمال اور دیگر صوبوں میں وسیع زمینیں اور دیگر مراعات دی گئیں تو وزیرستان اور قبائل میں ان کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس حل کو ٹی ٹی پی قبول کرے گی یا نہیں؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کیوں کہ قبائلی علاقوں سے ان کا فاصلہ جتنا زیادہ ہو گا، اتنا ہی یہ ان کی بھرتیوں، رسد اور مواصلاتی نیٹ ورک کو متاثر کرے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے شمال میں پہلے سے سرگرم شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان میں زیادہ تر بدخشانی، تخاری، ازبک، اویغور اور ترکمان جنگجو ہیں جن کے ساتھ وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے قریبی تعلقات تھے۔

ماضی میں ازبک جنگجو ٹی ٹی پی کے ساتھ اتحاد کر چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی بھی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی طرف جھکاؤ کی تاریخ رکھتی ہے اور اگر ٹی ٹی پی کو اس علاقے میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ جنگجو افغان طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروایوں میں مصروف ہے۔

 

پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے درمیان اس سے قبل بھی امن معاہدے ہو چکے ہیں جن میں مقامی قبائل بھی شامل تھے۔
2002 سے 2009 تک نیک محمد وزیر، بیت اللہ محسود، فضل اللہ، مولوری نذیر اور حافظ گل بہادر کا مختلف قبائلی علاقوں میں کافی اثر و رسوخ رہا۔ انھوں نے مقامی بازاروں میں اپنے دفاتر بھی کھول رکھے تھے اور وانا جیسے علاقوں میں اپنا عدالتی نظام چلاتے تھے اور پیسہ اکھٹا کرتے تھے۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کی یہ رائے بھی ہے کہ ٹی ٹی پی کو قبائلی علاقوں میں امن لشکر کے طور پر ذمہ داری دی جائے تاکہ وہ قبائل کو جواب دہ ہوں۔ ایسا تجربہ ماضی میں کیا جا چکا ہے جب ٹی ٹی پی مخالف گروہوں کو ایسا ہی کردار دیا گیا۔

لیکن یہ گروہ تنظیمی طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف کمزور پوزیشن کے حامل تھے۔ قبائلی علاقوں میں بھی ہر کوئی ٹی ٹی پی کی واپسی کی حمایت نہیں کرے گا۔ ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے پی ٹی ایم حالیہ مذاکرات پر تشویش رکھتی ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح کی صورت حال ایک بار پھر جنم لے سکتی ہے۔ تحریک کے ایک سرکردہ رکن عالم زیب محسود نے حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال میں ایک قبائلی امن جرگے میں کہا کہ مقامی قبائل حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتائج کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔

حلف برداری تقریب پر دائر حمزہ شہباز کی درخواست نامکمل قرار

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی فوج چاہتی ہے کہ طالبان کو قبائل کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔ کرم ایجنسی میں بھی ٹی ٹی پی کے بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت چند قبائل عمائدین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود اب تک ٹی ٹی پی کی شرائط کو دیکھتے ہوئے طویل المدت جنگ بندی کے آثار کم دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس محدود مگر آپشن موجود ہیں کیوں کہ ٹی ٹی پی کا بطور ایک مضبوط تحریک کے وجود پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں۔

Back to top button