عمران نے فیض کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا ہوا؟

سینئر صحافی و تجزیہ کار نجم سیٹھی نے دعوی کیا ہے کہ 9 اور 10 اپریل کی رات جب عمران خان نے بطور وزیر اعظم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے سے ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ان کی جگہ آرمی چیف نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تو ڈی جی آئی ایس آئی اور ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر نے اُن کی طبیعت صاف کردی اور یوں عدم اعتماد کا ووٹ پڑنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے تحریر کردہ اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ عمران اور اُن کا فسطائی ہائبرڈ دور حکومت بالآخر تمام ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ جو اس کا سہارا بنے ہوئے تھے، انہوں نے آخر کار اسے اپنی پیدا کردہ مشکلات کے گرداب سے نکالنے سے انکار کردیا۔ مزید یہ کہ حزب اختلاف، خاص طور پر مسلم لیگ ن وحشیانہ جبر کے سامنے متحد رہی اور عمران کی تمام چال بازیوں کو ناکام بنا دیا ۔ لیکن آخر میں یہ عمران ہی اپنے بدترین دشمن ثابت ہوئے اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تاکہ نہیں حکومت پر انتخابات کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے.

نجم سیٹھی یا دلاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے بھی بہت سی جماعتوں کی طرح  اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش پائی تھی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں ”الیکٹ ایبلز“ کو اپنی صفوں میں شامل کرایا اور آزاد اراکین اور چھوٹی جماعتوں کو اس کے ہم راہ کرکے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس کمزور تھی اور  یہ دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔

دوسال تک اپنے ہائبرڈ تجربے کو کامیاب بنانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اسے گورننس سکھانے کی بہت کوشش کی لیکن جب مایوس ہو کر اس کی دست گیری سے پیچھے ہٹ گئی تو پھر یہ ہائبرڈ نظام مشکل حالات کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔

نجم سیٹھی کے بقول اچھی کارکردگی دکھانے اور عوام کی فلاح کا سوچنے کی بجائے حزب اختلاف کا خاتمہ کرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دینا عمران کی بہت بڑی غلطی تھی۔ جب معیشت زمین بوس ہوئی اور پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بدعنوانی نے سر اٹھایا تو پول بتدریج عمران کا گراف نیچے اور نواز شریف کا اوپر جانے لگے۔

2021 کے وسط تک نوبت یہاں تک آگئی کہ عوام اور حزب اختلاف کے اشتعال کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہو گیا کیوں کہ اسی نے عمران کو قوم پر مسلط کیا تھا۔ بحرانی کیفیت اس وقت پیدا ہوگئی جب عمران نے اقتصادیات، گورننس اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور پر اپنے محسنوں کی بات سننے سے انکار کردیا۔

اس رویے نے اُنھیں دیگر آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کردیا۔ لیکن اس سے اعتماد کے شیشے میں دراڑ پڑ گئی، اور معاملات قدرے خراب ہونے لگے۔ فیصلہ کن موڑ وہ تھا جب عمران نے اسٹیبلشمنٹ کے داخلی امور میں مداخلت شروع کردی، خاص طور پر جب انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور پر ڈی جی آئی ایس آئی توسیع دینا چاہی تا کہ وہ اپنی خفیہ ایجنسی کو استعمال کرتے ہوئے اس کا اقتدار مستحکم کر دیں۔اس کے بدلے عمران نے اُنہیں خلاف معمول آرمی چیف بنانے کا وعدہ کیا۔ اس چیز نے عمران خان کو سینئر جنرلوں کی حمایت سے محروم کردیا۔ ان میں سے ہر کسی کی قانونی طور پر جائز خواہش تھی کہ وہ ملک کے سب سے طاقت ور عہدے پر فائز ہو۔

نجم سیٹھی بتاتے ہیں کہ درحقیقت جنرل قمر باجوہ کی قیادت میں جرنیلوں کے اس گروہ نے تب برہمی کا اظہار کیا جب عمران نے فیض حمید کی خدمات فوج کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن بالآخر جرنیلوں کی بات ہی مانی گئی۔ تاہم تب تک فوجی قیادت اور عمران خان کے تعلقات کا آئینہ انتہائی گدلا ہوچکا تھا اور طرفین غصے سے کھول رہے تھے۔

حزب اختلاف نے نمودار ہونے والی اس سنگین خلیج کو دیکھتے ہوئے اپنے باہمی اختلافات بھلادیے اور عمران کے خلاف ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ ”الیکٹ ایبل“ اور ”لوٹوں“ کو عمران خان نے بری طرح نظر انداز کیا تھا کیوں کہ وہ ان کی حمایت کو مفت ملی نعمت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ گروہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے ہے۔ یہ لوگ فوراً ہی اسٹیبلشمنٹ کابرہم مزاج بھانپ گئے اور حزب اختلاف کے ساتھ راہ رسم بڑھانا شروع کردیے۔ اس کے بعد، جیسا کہ کہا جاتا ہے، باقی سب تاریخ ہے۔

نجم سیٹھی کے بقول ہمیں رواں سال جنوری میں ہی عمران خان کے اختتام کے آثار دکھائی دینے لگے تھے اور ہماری پیش گوئی تھی کہ مارچ میں ان کی وکٹ گر جائے گی۔ بدقسمتی سے عمران کا خود پر نرگسی یقین کہ وہ مجسم اچھائی اور حزب اختلا ف مجسم برائی ہے، دراصل جمہوری اقدار اور قانون کی حکمرانی سے متصادم ہے۔ جب اُنھوں نے ہر اصول اور آئین کے ہر ضابطے اور قانونی طریق کار کو بے باکی سے پامال کرنا شروع کردیا تو وہ سول سوسائٹی کی حمایت سے محروم ہوگئے اور اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے سہارے بھی انکا ساتھ چھوڑ گئے۔

آخری کوشش کے طور پر عمران خان نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین غلطی کی۔ وہ دراصل ایوان کو خاکستر کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ انکا موقف تھا کہ اگر اقتدار اُن کے پاس نہیں ہے تو کوئی بھی حکومت نہ بنا سکے۔ قومی اسمبلی سے عمران خان کے استعفے دینے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ ویسے بھی جس شہباز شریف کو وہ پونے چار برس تک چور قرار دیتے رہے اس کو وزیراعظم بنتے ہوئے دیکھنا ان کے لیے ناقابل قبول تھا۔

نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ گزشتہ دس دنوں نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ دس اپریل کو نصف شب کے آخری دو منٹوں میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پڑا۔ یہ دن ”یوم دستور“ کہلاتا ہے۔ لیکن اس رات آخری دو گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے واقعات ہماری تاریخ کے چوتھے مارشل لا کی صورت دھارتے دکھائی دے رہے تھے۔ عمران نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی کابینہ اور سپیکر قومی اسمبلی کو اپنی بغاوت کا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔

لیکن جب اُنھوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے سے ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ان کی جگہ آرمی چیف نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تو کچھ وزرا نے قدم پیچھے ہٹا لیا۔ آخر میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ٹرپل ون (111) بریگیڈ کے کمانڈر سے گفتگو نے خان صاحب کی طبیعت صاف کردی اور یوں عدم اعتماد کا ووٹ پڑ گیا۔ لیکن اس سے پہلے عمران نے اپنے بچاؤ کی کوشش میں سپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر کو چلتی بس سے نیچے دھکا دے دیا تھا۔

اس سے پہلے شہباز شریف نے قومی مفاد میں عمران کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور یقین دلایا کہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کو کسی طور چلنے نہیں دیں گے، چاہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی ملک اور اس کی معیشت کو کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر عمران خان کے مخالفین بھی اُنھیں کیچڑ میں گھسیٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

بقول نجم نئی حکومت اپنے اہداف طے کرچکی ہے۔ انتخابی قوانین کی اصلاح کرنی ہے تاکہ آزاداور منصفانہ انتخابات ہوسکیں۔ نیب قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے احتساب کے عمل کو شفاف بناناہے۔ لیکن سب سے اہم، عوام کو مہنگائی سے ریلیف اور قرض فراہم کرنے والے اداروں کے مطالبات کے درمیان بجٹ کا تواز ن قائم کرنے کے لیے الفاظ کو عملی شکل دینی ہے۔ گویا اب کمر کسنے کا وقت آن پہنچا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت میں لانے کے لیے نو شراکت داروں نے اپنا کندھا فراہم کیا ہے۔ اب وہ اپنا حصہ چاہیں گے۔

عمران خان کیخلاف غداری مقدمہ کی درخواست مسترد

اُن کی خواہشات مختلف سمتوں سے حکومت کے دامن گیر ہوں گی۔ اگر شہباز شریف اگلے انتخابات سے پہلے اس مسلے کو نہ سنبھال سکے تو عمران خان پلٹ کر وار کریں گے اور حکومت کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔ اس لیے جن کا خیال ہے کہ وہ طویل تناؤ کے بعد اب سکون کا سانس لے لیں گے، اُن سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ لہذا جمہوریت کے درپے مشکلات اور مصائب ابھی کہیں نہیں گئے۔

What happened when Imran decided to make Faiz army chief? video

Related Articles

Back to top button