عمران خان اپنی دوستیاں اور رشتے کیوں نہیں نبھا پاتے؟

عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کا کہنا ہے کہ انتہا کی خود پسندی میں مبتلا خان صاحب کو نہ تو رشتے نبھانے آتے ہیں اور نہ ہی دوستیاں، اور اسی وجہ سے ان کے دوست اور رشتہ دار زیادہ عرصہ ان کے ساتھ نہیں چل پاتے۔ ریحام نے اپنی بات کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے عمران کی ناکام شادیوں اور ناکام دوستیوں کا حوالہ دیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں ریحام کی بات میں وزن ہے کیونکہ عمران خان تحریک عدم اعتماد میں شکست کے دہانے پر بھی اسی وجہ سے پہنچے کہ ان کے قریب ترین دوست ان کو چھوڑ گے، چاہے وہ جہانگیر خان ترین ہوں یا عبدالعلیم خان۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ عمران کی حکومت جانے میں اپوزیشن کی بجائے ان کے قریبی ساتھیوں کا کردار ذیادہ نمایاں رہا ہے، عمران کا زوال بھی تبھی شروع ہوا جب انکے قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑنا شروع ہوئے، پھر کچھ قریبی دوستوں کو عمران نے خود چھوڑ دیا، یہی وجہ ہے کہ انکی حکومت ساڑھے تین سال ہی پورے کر پائی۔ عمران کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد دو سال قبل ہی بن چکا تھا تاہم اب اس اتحاد کا ساتھ ایسے لوگ بھی دے رہے ہیں جو ماضی میں عمران کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ عمران نے اقتدار سنبھالا تو مختلف وجوہات کے باعث ان کے قریبی ساتھی ان سے دور ہوتے گئے، ان میں سے کچھ کو جب وزیراعظم نے حکومت سے علیحدہ کیا تو وہ اُن کے خلاف سرگرم ہوگئے جبکہ کچھ اب بھی عمران خان کے ساتھ موجود ہیں۔

جہانگیر ترین کا شمار عمران خان کے اُن قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا جو ان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ تک اثرو رسوخ رکھتے تھے، لودھراں سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین 2011 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور رفتہ رفتہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ 2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی پوری انتخابی مہم کی ذمہ داریاں جہانگیر ترین اور اسد عمر کے سپرد تھیں، 2014 میں تحریک انصاف کے 126 دن کے دھرنے میں بھی جہانگیر ترین کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے، 2018 کے عام انتخابات میں جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کی وجہ سے عام انتخابات میں حصہ تو نہ لے سکے لیکن حکومت سازی کے مرحلے میں جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا۔

جہانگیر ترین نے پنجاب سے آزاد حیثیت سے جیتنے والے امیدواروں کو تحریک انصاف میں شامل کروا کر پنجاب اور وفاق میں عمران کی حکومت قائم کروائی۔ حکومت بننے کے بعد وزیراعظم نے مختلف ٹاسک فورسز قائم کیں جس میں جہانگیر ترین کو زراعت کے شعبے کی ٹاسک فورس کا کنوینر مقرر کیا گیا، تاہم حکومت بننے کے بعد ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور جس کی وزیراعظم نے ایف آئی اے سے انکوائری کروائی تو جہانگیر ترین کی شوگر ملز چینی بحران کی ذمہ دار قرار پائیں۔ اس کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین سے پارٹی عہدہ واپس لینے کے بعد حکومت سے ان کو علیحدہ کر دیا اور ان کے خلاف ایف آئی اے میں کیسز درج ہوگئے، بعد میں ترین اور عمران کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں اور ترین نے پارٹی میں اپنا ایک علیحدہ گروپ بھی تشکیل دے دیا۔ جہانگیر ترین کا گروپ پنجاب اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی طرح عون چوہدری عمران کے پرسنل سیکریٹری کے طور پر 2014 کے دھرنوں کے دوران سامنے آئے، وہ عمران کے ذاتی سیکریٹری ہونے کے باعث بنی گالہ کے بھی تمام معاملات دیکھتے اور عمران خان کے تمام سیاہ و سفید سے واقف تھے۔ 2018 میں وزارت عظمٰی کا حلف اٹھانے سے قبل ہی عمران خان نے عون چوہدری کو پنجاب بھیجتے ہوئے وزیر اعلٰی کا معان خصوصی مقرر کردیا تاہم جہانگیر ترین کے ساتھ عمران خان کی بڑھتی دوریوں کی وجہ سے عون چوہدری بھی عمران خان کے خلاف ہوگئے اور اب جہانگیر ترین گروپ کا حصہ ہیں۔

اسی طرح عبد العلیم خان کا تعلق پراپرٹی کے کاروبار سے ہے تاہم سال 2002 سے وہ سیاست سے بھی منسلک ہیں۔ 2011 میں عبدالعلیم خان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر بن گئے، 2018 کے عام انتخابات میں علیم خان صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہو کر آئے تو وہ وزیراعلٰی پنجاب کے عہدے کے ایک مضبوط امیدوار تھے تاہم نیب کیسز ہونے کے باعث عبد العلیم خان کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عبدالعلیم خان کو سینئر وزیر کا قلم دان دیا گیا، تاہم ان کے خلاف تفتیش بدستور جاری رہی اور حکومت بننے کے چند ماہ بعد ہی نیب نے انہیں گرفتار کر لیا، اس کے بعد عبد العلیم خان نے اپنی وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

علیم خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری سے پہلے ہی علیم خان اور عمران خان کے درمیان دوریاں پیدا ہو چکی تھیں، عمران خان کو علیم خان کے خلاف مبینہ طور پر رپورٹس پیش کی گئی تھیں جس کی وجہ سے عمران خان نے علیم خان کو کوئی اہم عہدہ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت علیم خان پنجاب اسمبلی میں علیحدہ گروپ بنا چکے ہیں۔ علیم خان گروپ نے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے لیے حمزہ شہباز کی حمایت کی ہے۔

کارکنوں سے احتجاج کی اپیل ، زرتاج گل کا بھی آڈیو پیغام لیک ہوگیا

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی وفاقی کابینہ میں سے اگر کسی رکن کی رسائی بنی گالہ تک تھی تو وہ زلفی بخاری تھے، زلفی بخاری پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور وزیراعظم کے سب سے زیادہ قریبی سمجھے جاتے تھے، عمران نے اقتدار سنبھالا تو زلفی بخاری کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں اور انہیں اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز مقرر کیا۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں تو اس میں مبینہ طور پر زلفی بخاری کا نام بھی سامنے آیا، اس پر زلفی بخاری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کی قربتیں بھی کم ہونے لگی۔

بنی گالہ میں موجود مختلف حلقوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ زلفی بخاری کابینہ کے واحد رکن تھے جو بنی گالہ کسی بھی وقت عمران خان سے ملاقات کے لیے چلے جاتے تھے۔ عمران بھی ان کے ساتھ ہر معاملے میں مشورہ کرتے تاہم رنگ روڈ سکینڈل منظرعام پر آنے کے بعد زلفی بخاری کا تعلق متاثر ضرور ہوا ہے لیکن وہ اب بھی عمران خان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

Why can’t Imran maintain his friendships and relationships? | video

Related Articles

Back to top button