سپریم کورٹ کے ججز خدا بننے کی ناکام کوشش کیوں کر رہے ہیں؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اہم مقدمات کی سماعتوں کے دوران سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے دیے جانے والے سیاسی ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خدا بننے سے گریز کریں کیونکہ تاریخ نے ان کا احتساب بھی کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس اطہر من اللہ کا نام لیے بغیر اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ زبان کا زخم سب سے گہرا ہوتا ہے، آج کے جارحانہ اور پر تشدد ماحول میں جو ججز اپنی زبانوں سے زخم لگا رہے ہیں کیا انہیں یاد نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف قتل کے جھوٹے کیس کے دوران متعصب اور کینہ پرور ججز کو بار بار می لارڈ کہہ کر مخاطب کرتے رہے، کیا انہیں یاد نہیں کہ تاریخ کا لافانی کردار سقراط منصفوں کے غلط فیصلے پر کبیک کہتے ہوئے زہر کا پیالہ پی گیا تھا اور جاتے جاتے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آج میں نے اس غلط فیصلے کو نہ مانا تو کل لوگ منصفوں کے صحیح فیصلوں کو بھی نہیں مانیں گے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انسانی معاشرت نے صدیوں کی مسافت طے کرکے اپنے اندر ہی سے کچھ لوگوں کو خدائی اختیار دے کر منصف بنایا ہے اور صدیوں کی ریاضت نے یہ طے کیا ہے کہ یہ منصف سیاہ کریں یا سفید کریں ان کے آگے سر جھکانا ہے، یہی مہذب معاشرے کی نشانی ہے۔ دوسری طرف منصفوں کو خدائی اختیار دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اقعی خدا بن جائیں، تاریخ ان کا حساب بھی لیتی ہے اور احتساب بھی کرتی ہے وہ منصف جنہوں نے سقراط کے خلاف فیصلہ سنایا تھا، آج تاریخ میں ان کا نام ظالموں کی فہرست میں آتا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑکے خلاف فیصلہ کرنے والے تاریخ کے بدترین کردار ٹھہرے اور ہمارے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے ججوں کو تو خود عدلت عظمیٰ نے غلط قرار دے دیا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ججز کو اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی کاٹ، حرمت اور اہمیت کا اندازہ نہیں۔ جج کا ہر لفظ حکم کی طرح ہوتا ہے اس لئے غصے یا پیار میں اسے احتیاط کرنی چاہیے، نہ غصے میں خود کو بِھڑ کہنا چاہیے اور نہ پیار میں جسٹس بندیال کی طرح ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہنا چاہیے، جسٹس شیخ عظمت کی طرح وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل کے سیل میں بند کرنے کی دھمکی دینا بھی نا مناسب ہے۔
پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو اپنا کردار ادا کرسکتا ہوں: محمود خان
سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ یہ سارے فقرے یہ سارے نشتر جمہوری جسد پر زخم لگاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ’’کالی بھیڑیں ‘‘کا لفظ استعمال کرنا بھی غلط ہے، ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اشتعال بڑھتا ہے، تنائو میں اضافہ ہوتا ہے اور جمہوری ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے۔
سہیل وڑائج کے بقول جسٹس اطہر من اللہ جمہوری اور آزاد جج ہیں ہمیشہ سے پارلیمان کو سپریم مانتے ہیں، اپوزیشن کے زمانے میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ سنایا، عمران خان دور میں پیکا آرڈیننس کو کالعدم کرکے اس وقت کی حکومت کو ناراض کیا، اگر کسی مقدمے میں انکی رائے مختلف ہو تب بھی ان کا احترام آئینی اور اخلاقی تقاضا ہے۔ وزیر اعظم ہو یا کوئی بھی عام شہری ،اس کو آئینی طور پر فیصلوں پر تنقید کا حق تو حاصل ہے لیکن جج کو کالی بھیڑ کہنے کا اختیار نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو عدلیہ کو چمک کا شکار قرار دیتی تھیں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فیصلے کو صحافیوں نے جوڈیشل مرڈر قرار دیا، یہ تنقید کا مہذب انداز تھا اگر تنقید کرنی بھی ہو تو اسی لطیف پیرائےمیں کرنی چاہیے۔
سہیل وڑائج کے بقول آج کا المیہ یہ ہے کہ عدلیہ کے فاضل ججز خوف اور لالچ کے زیر اثر طاقتور کی دہلیز پر سجدے کئے جا رہے ہیں، یوں انہوں نے آئین قانون اور مفاد عامہ کو پس پشت ڈال رکا ہے۔ ملک کے اہل سیاست بہت مشکلات سے گزرتے رہے ہیں۔ متعصب اور طاقت سے مرعوب ججوں کے فیصلوں کا شکار ہوتے رہے ہیں لیکن قدرت نے ان ساری آزمائشوں کے باوجود انہیں بھی دوبارہ سے اقتدار دیا ہے انہیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے، ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ اور اب ججوں کو کالی بھیڑیں قرار دینا صریحاً غلط ہے ۔اسی طرح ججز کو بھی سمجھنا چاہیے کہ انکا ایک لفظ، فقرہ یا طنز فوراً وائرل ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی کیس کے فیصلے سے پہلے ہی ان کا ذہن پڑھ لیا جاتا ہے۔ یوں ججز کا تاثر مجروح ہوتا ہے۔عدلیہ ہو یا اہل سیاست ،انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ دونوں جمہوریت کے پیڑ کی ہی دو شاخیں ہیں اگر ایک شاخ گر گئی یا اسے نقصان پہنچا تو طاقتور ہوائیں دوسری شاخ کوبھی خس و خاشاک کی طرح اڑا لے جائیں گی۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ جمہوری پیڑ کو مضبوط کیا جائے، دونوں شاخوں پر کونپلیں اور پتے پھوٹنے دیئے جائیں نہ ایک شاخ دوسری شاخ پر سایہ کرکے یا طاقت کے بل پر اسکا راستہ روکے اور نہ ہی شاخیں ایک دوسرے سے الجھ کر سوکھنا شروع کردیں۔