کیا شوکت ترین دوبارہ ناکام ترین ثابت ہونگے؟

ماضی میں دو بار پاکستان کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے کھوکھلے دعوے کرنے کے بعد بغیر کچھ کیے بھاگ جانے والے وزیر خزانہ شوکت ترین ایک بار پھر شیخ چلی کی طرح بلند شرح نمو اور صنعتی انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ماضی میں انکے دعوے غلط ثابت ہوئے اسی طرح اب کی بار بھی ترین کوئی چمتکار دکھانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہے اور شاید وہ تیسری مرتبہ بھی بھاگ جانے کا ہی فیصلہ کریں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ شوکت ترین عملی طور پر وزیر خزانہ بننے سے پہلے ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے برھتی عمر اور خرابی صحت کے باعث اپنے سلک بینک کے معاملات بھی چھوٹے بھائی عظمت ترین کے حوالے کر دیے تھے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ اگر وہ اپنا بینک چلانے کے لئے بھی وقت نہیں نکال پا رہے تھے تو بطور وزیر خزانہ وہ پاکستانی معیشت درست کرنے کے لیے وقت کیسے نکالیں گے۔
یاد رہے کہ 2008 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے طویل عرصے بعد آئی ایم ایف کے پروگرام سے استفادہ کیا تو شوکت ترین نے ملکی معیشت درست کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے۔ انہوں یہاں تک کہا کہ اب ہم معیشت کو اس قدر مستحکم کردیں گے کہ آئندہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرض لینا ہی نہیں پڑے گا۔ انہوں نے مذید فرمایا کہ اگر میں یہ کام نہ کرسکا تو وزارت چھوڑ جاؤں گا۔ اس دعوے کے بعد وہ مزید ایک برس وزیرِ خزانہ رہے اور پھر اچانک فروری 2010ء میں ملکی معیشت سنوارنے کی بجائے اپنا سلک بینک بچانے کے لیے واپس چلے گئے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شوکت ترین کی بطور وزیرِ خزانہ تقرری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو احساس ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ ڈھائی سال میں اصلاحات و بچت کے نام پر معیشت میں جو گراوٹ اور سکڑاؤ پیدا کیا ہے اس کے نتیجے میں بڑھنے والی بے روزگاری اور افراطِ زر نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ شاید حکمراں جماعت اپنی باقی ماندہ مدت میں اپنی اس غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے تیزی سے معاشی ترقی کرنا چاہتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ماضی میں دو مرتبہ چلا ہوا کارتوس ثابت ہونے والے شوکت ترین کب تک موجودہ حکومت کے وزیرِ خزانہ رہتے ہیں اور کیا وہ ان تمام وعدوں اور دعوؤں پر عمل درآمد کرواسکیں گے جن کا اظہار انہوں نے وزیرِ خزانہ بننے سے قبل کیا تھا؟ معاشی ماہرین کے مطابق ماضی میں شوکت ترین کو جو سب سے بڑا مسئلہ رہا وہ تھا افراطِ زر یا قیمتوں میں اضافہ کا۔ مالی سال 2009ء-2008ء میں افراطِ زر موجودہ صدی کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس عرصے میں میں افراطِ زر 20.29 فیصد ریکارڈ کیا گیا، جس میں فوڈ انفلیشن کی شرح 23 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ افراطِ زر کی اس بلند ترین شرح کے باعث اس وقت کی گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر نے بنیادی شرحِ سود میں تیزی سے اضافہ کرتے ہوئے شرحِ سود کو 15 فیصد کردیا تھا۔ شرحِ سود میں اس ہوشربا اضافے پر تاجر برادری کی جانب سے کڑی تنقید کی جارہی تھی۔
کپتان حکومت میں شوکت ترین کو وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور ایسے وقت میں دی گئی ہے جب تحریکِ انصاف کی حکومت کو معاشی سیاست کے میدان میں کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ بچت کی بنیاد پر بنائی گئی پالیسیوں کے تقریباً 33 مہینوں میں اگرچہ عوام کی چیخیں تو نکلی ہیں مگر نہ تو ٹیکس وصولی بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی معیشت میں ڈالر کمانے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے۔ شوکت ترین نے گزشتہ ڈھائی سال سے جاری بچت کی پالیسی کے بجائے معیشت میں توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ عہدے کو سنبھالا ہے۔ وہ معیشت میں سرمایہ کاری کرکے توسیع دینے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے وزیرِ خزانہ بننے سے قبل وزیرِاعظم ہاؤس میں معاشی ماہرین کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں اپنے چند اہداف کا اظہار بھی کیا تھا۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی گزشتہ معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو درست طور پر مرتب نہیں کیا ہے اور ایسی کڑی شرائط پر اتفاق کیا گیا جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ شوکت ترین کے مطابق جب افراطِ زر 7 فیصد تھا تو اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرحِ سود 13.25 فیصد کردی اور ڈالر کو 168 روپے تک لے گئی جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تو کمی ہوئی مگر ساتھ بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر اجناس کو بھی مہنگا کردیا۔ انکا کہنا یے کہ اگر یہ اقدامات اٹھانا تھے تو بتدریج ستائے جاتے اور آہستہ اہستہ بوجھ کو عام آدمی پر منتقل کیا جاتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شوکت ترین معیشت کی موجودہ صورتحال اور معاشی فیصلوں میں 180 درجے کے تضاد پر گورنر اسٹیٹ بینک کو راضی کر پائیں گے؟ کیا رضا باقر معیشت کے حوالے سے سکڑاؤ اور بچت کی پالیسی کے برخلاف معیشت میں توسیع اور شرحِ سود میں کمی اور روپے کی مضبوطی کو تسلیم کریں گے یا نہیں؟معاشی ترقی کے حوالے سے شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے آئندہ 20 برسوں میں اجتماعی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 6 سے 8 فیصد تک ترقی کرنا ہوگی۔ دوسری جانب اگر پی ٹی آئی کے معاشی منشور کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عمران خان کی ٹیم نے قوم سے معاشی ترقی کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔ شوکت ترین کے مطابق گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے جبکہ منفی شرحِ نمو سے ایک سال میں ملازمتی مارکیٹ میں آنے والے 45 لاکھ افراد کو روزگار نہیں ملا ہے۔ اگر معیشت کو بغیر کسی ترقی کے چلانا ہے تو جی ڈی پی میں کم از کم 2 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔افراطِ زر کو معاشی ماہرین بدترین ٹیکس قرار دیتے ہیں کیونکہ افراطِ زر میں ایک تو پیداوار بڑھتی نہیں دوسرا لوگوں کو اضافی قیمتوں کی وجہ سے اضافی ٹیکس دینا پڑجاتا ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں افراطِ زر اگرچہ بہت زیادہ ہے مگر اس کا اثر ملکی ٹیکس وصولی پر نہیں پڑا ہے۔ 2 سال تک ٹیکس وصولی ایک سطح پر منجمد رہی لیکن رواں برس اس میں تقریباً 10 فیصد کا اضافہ نظر آرہا ہے۔ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد ہے جو بہت کم ہے۔ شوکت ترین نے تجویز کیا ہے کہ ٹیکس کی وصولی بڑھانے اور نئے ٹیکس دہندگان کو ہراسانی سے بچانے کے لیے نیا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصولنے والوں میں کم سے کم رابطہ ہو۔ انکامکہنا ہے کہ ہر سال ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب میں سالانہ جی ڈی پی کا 2 سے 3 فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ شوکت ترین زراعت پر ٹیکس جمع کرنے کے بھی حامی نظر آتے ہیں۔ ملکی خزانے پر اس وقت سب سے بڑا بوجھ غیر فعال اور خسارے کے شکار حکومت کے کاروباری ادارے اور توانائی کا شعبہ ہے۔ اس حوالے سے بھی نئے وزیرِ خزانہ ایک مؤقف رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پبلک سیکٹر انٹر پرائیز کی تنطیمِ نو کیے بغیر حکومتی بجٹ کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شوکت ترین ملکی خزانے میں مختص فنڈز کو جی ڈی پی کی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں مختص کیے گئے ترقیاتی فنڈز کو استعمال کیا جائے گا اور ترقی کے لیے پلاننگ کمیشن کو فعال کیا جائے گا تاکہ وہ مؤثر ترقیاتی منصوبے تشکیل دے سکے۔ کے نزدیک معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور زرِمبادلہ کمانے کے لیے صنعتی ترقی کو بحال کرنا ہوگا۔ مگر وہ موجودہ صنعتی ڈھانچے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں صنعتیں خاندانوں نے لگائی ہیں اور تقسیم کی وجہ سے صنعتی ہاؤس بڑھنے کے بجائے سُکڑ رہے ہیں۔ ان صنعتی گھرانوں کو کارپوریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعتی ترقی کے حوالے سے شوکت ترین کی نظریں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر جمی ہوئی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سی پیک کے ذریعے چینی صنعتوں کو پاکستان لایا جائے۔ اس حوالے سے اہم پیش رفت ہوچکی ہے اور رشکئی کے خصوصی صنعتی زون میں پہلی چینی کمپنی نے اپنے یونٹ کو قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا ہے اور وہاں بجلی کی فراہمی کے لیے حکومت نے بھی اقدامات شروع کردیے ہیں۔ دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ وہ ہائی گروتھ ریٹ سے بڑھ کر ہائی ٹیک گروتھ ریٹ کی جانب جانا چاہ رہا ہے اور متعدد صنعتیں ایسی ہیں جن کو چین اپنی مین لینڈ سے منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اب پاکستان کو جلد از جلد ان صنعتوں کو پاکستان لانے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔
تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ان عزائم پر عملدرآمد کرو پاتے ہیں یا ماضی کی طرح اچانک ایک روز استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button