سیاسی انتقام کے خاتمے کے لیے نیب ختم کر دینا چاہئیے

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ عمران خان، اسد قیصر اور کئی اہم سابق وزرا کے خلاف کرپشن کیسز تیار ہیں اور ریفرنس داخل کرنے کے لئے نیب صرف اشارے کا منتظر ہے۔ موجودہ سیٹ اپ کے بہت سارے لوگ نیب کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تا کہ اب عمران اور ان کے ساتھیوں کو بھی نیب کا مزہ چکھوایا جا سکے لیکن غلطی کا جواب غلطی سے اور ظلم کا جواب ظلم سے دینا اہل ظرف کا شیوہ نہیں۔ اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو اس ملک میں ایف آئی اے، ایف بی آر، اینٹی کرپشن اور ایسے کئی ادارے موجود ہیں جن سے تحقیقات کروا کر عدالتوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لہذا نیب کے ادارے کو ختم کر کے عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھائی جائے تاک واقعی صاف اور شفاف احتساب کیا جا سکے۔

عمران کے کہنے پر فوج مخالف سوشل میڈیا ٹریندز میں کمی

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ عمران دور میں ہر حوالے سے اور ہر پیمانے پر ثابت ہوا کہ قومی احتساب بیورو، اصلاً قومی انتقام بیورو ہے۔ اس ادارے سے ہر گھنائونا کام لیا گیا لیکن اس ادارے نے نہیں کیا تو احتساب نہیں کیا۔نیب بارے اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں فیصلوں میں گواہی مل جاتی ہے کہ یہ عمران دور میں احتساب کا نہیں بلکہ پولیٹکل انجینئرنگ کا ادارہ بنا رہا ہے۔ اس کے زیادہ تر اہلکار اور بالخصوص اس کے سابق چیئرمین جاوید اقبال خود احتساب خے لائق ہیں۔ وہ خود بلیک میل ہوتے رہے اور دوسروں کو بلیک میل کرتے رہے۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بنے رہے اور پھر ایک خاتون سے چیئرمین نیب کے خلاف مواد ہاتھ میں لینے کے بعد عمران خان انہیں بلیک میل اور ڈکٹیٹ کرتے رہے ۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ سیف الرحمان سے لیکر جنرل امجد، اور جنرل خالد مقبول سے لیکر ایڈمرل فصیح تک، کسی دور میں اس ادارے نے احتساب کا کام نہیں کیا لیکن عمران خان اور ان کو اقتدار میں لانے والوں نے جس بری طرح اسے سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا، اس کی وجہ سے تو الٹا اس ادارے نے سیاست کو رسوا اور معیشت کو تباہ کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ صافی کہتے ہیں کہ پچھلے چار سال میں نیب کی وجہ سے نہ جانے کتنا سرمایہ اس ملک سے نکل گیا۔نہ جانے کتنے سرمایہ کار پاکستان چھوڑ گئے۔ نہ جانے کتنے افسروں نے عملا ًکام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ مختصر یہ کہ اس ملک کی موجودہ اقتصادی تباہی اور سرکاری افسران کے کام چور بن جانے میں بنیادی کردار نیب نے ادا کیا۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا، اس کے بعد کوئی افسر معمولی رسک کی حامل فائل کو ہاتھ لگانے کا رسک نہیں لے رہا۔ درحقیقت جنرل مشرف کے دور میں بنایا گیا نیب کا قانون ہی انصاف کے اصولوں کے منافی تھا۔ ہمارا دین اور مغربی دنیا کے قوانین، دونوں کی رو سے جرم ثابت کرنا، الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن نیب قانون کی رو سے نیب کسی پر الزام لگادیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔

صافی کہتے ہیں کہ ہمارے دین اسلام اور موجودہ مہذب دنیا کے قوانین کی رو سے ہر شخص کو اس وقت تک معصوم سمجھاجائے گا جب تک وہ عدالت سے مجرم ثابت نہ ہو لیکن نیب قانون کی رو سے ہر ناپسندیدہ شخص کو مجرم قرار دیاجاتا ہے۔ یہ سراسر ظالمانہ قانون ہے جس کی وجہ سے نیب اور اس کے چیئرمین سب سے بڑا مافیا بن گئے تھے۔ ابھی تو صرف طیبہ گل بولی ہیں لیکن نہ جانے کتنے عزت مند لوگوں کی عزتیں نیب کے ہاتھوں تار تار ہوئیں۔ اگر کبھی مریم نواز نے وہ بیان کیا جو ان کے ساتھ نیب کی تحویل میں ہوا تو طوفان کھڑا ہوجائےگا۔ نیب صرف عزتوں کے درپے نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ سے بریگیڈئیر (ر) اسد منیر جیسے لوگ بھی خودکشیوں پر مجبور ہوئے۔ یوں میرے نزدیک اس کے قانون میں ترمیم کرنے اور نئے چیئرمین کے انتخاب پر وقت ضائع کرنے کی بجائے اس ادارے کا وجود ہی ختم کردینا چاہئےاور اس کے سابق اور موجودہ ذمہ داروں کے اثاثوں کی ایف آئی اے جیسے اداروں کے ذریعے تحقیق اور عدالتوں کے ذریعے محاسبہ بھی ہونا چاہئے۔

صافی کے بقول، کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن نیب کا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اس کی ایک آنکھ حد سے زیادہ دیکھنے والی اور دوسری مکمل بند ہوا کرتی۔ پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ(ق) اور پی پی پی پیٹریاٹ سے متعلق اس کی آنکھ مکمل بند تھی جبکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے متعلق حد سے زیادہ کھلی تھی۔ سیف الرحمان کے دور میں مسلم لیگ(ن) کو دیکھنے والی آنکھ مکمل بند اور پیپلز پارٹی سے متعلق حد سے زیادہ کھلی تھی۔ زرداری صاحب کے دور میں اس کی دونوں آنکھیں بند تھیں جبکہ عمران خان کے دور میں اس کی ایک آنکھ حد سے زیادہ کھل گئی۔ لیکن عمران اور اس کے اتحادیوں سے متعلق اس کی آنکھ مکمل بند رہی ۔ اسے صاف پانی اسکیم تو نظر آئی لیکن بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، ہیلی کاپٹر اور پارٹی فنڈنگ جیسے معاملات نظر نہیں آئے۔ صافی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو جوابی مزہ چکھنا کے لیے نیب کے ادارے کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن غلطی کا جواب غلطی سے اور ظلم کا جواب ظلم سے اہل ظرف کا شیوہ نہیں۔ کسی نے اگر کرپشن کی ہے تو اس ملک میں ایف آئی اے، ایف بی آر، اینٹی کرپشن اور اسی طرح کے کئی دیگر ادارے موجود ہیں۔ ان سے تحقیقات کروا کے عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔

صافی کہتے ہیں کہ جب ہم جیسے لوگ نیب کے مکمل خاتمے کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس سے یہ معنی نکالتے ہیں کہ جیسے ہم چاہتے ہیں کہ کرپشن کو روکنے والا کوئی ادارہ نہ ہو حالانکہ مجھ جیسے لوگ نہ تو نیب کے دائرے میں آتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ کرپشن روکنے کا کوئی ادارہ نہ ہو۔ نیب کا ہر کیس بھی اوپر جاکر اعلیٰ عدلیہ میں ہی جاتا ہے اور حتمی فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے۔نیب اگر کرپشن روکنے کا ادارہ ہوتا تو اس کے بن جانے کے بعد کرپشن کم ہونی چاہئے تھی لیکن عمران کے دور میں عالمی کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ نیب کے بنائے ہوئے نناوے فی صد کیسز کو اعلیٰ عدلیہ نے اٹھا کر پھینک دیا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ اس ادارے کو ختم کرکے عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھائی جائے اور ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے اداروں کو مضبوط اور آزاد بنایا جائے۔

Back to top button