امریکہ نے بالآخر پاکستانی سفیر کی تقرری کی منظوری دے دی
بھارت کے اعتراضات اور اپنے سینیٹرز کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے سردار مسعود خان کی بطور پاکستانی سفیر امریکا میں تعیناتی کو قبول کرلیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے بتایا کہ امریکی حکومت نے سردار مسعود خان کی واشنگٹن میں بطور پاکستانی سفیر تعیناتی کی منظوری بھجوادی ہے۔عاصم افتخار نے کہا کہ سردار مسعود خان بہت جلد واشنگٹن میں اپنے عہدے کی ذمےداریاں سنبھالیں گے۔
پاکستان کے موجودہ سفیر اسد مجید خان نے بھی پیش رفت کی تصدیق کی ہے، ان کا کہنا تھا میں تصدیق کرتا ہوں کہ ہمیں منظوری مل گئی ہے ، انہوں نے منظوری میں غیر معمولی تاخیر کے تاثر کو مسترد کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر اس تمام عمل میں آٹھ سے دس ہفتے لگتے ہیں لیکن ابھی عالمی وبا کے باعث معاملات عام حالات سے قدرے سست رفتار سے چل رہے ہیں، اس لیے کوئی تاخیر نہیں ہے، منظوری کا عمل معمول کے مطابق چل رہا ہے۔
سفیر کی منظوری 5 فروری کو سفارت خانے کو موصول ہوئی، واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سرکاری سطح پر میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت سردار مسعود خان کی بطور پاکستانی سفیر امریکا میں تعیناتی کی منظوری بھجوادی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سفیر سردار مسعود خان ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں جو اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرچکے ہیں، وہ بہت جلد واشنگٹن میں اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔ اس سے قبل بیان میں سفارت خانے نے کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت اس ماہ کے شروع میں منظوری دینے کے بعد دستاویزات واپس کردے گی۔پاکستانی سفارت خانے نے نومبر میں سردار مسعود خان کے دستاویزات امریکی محکمہ خارجہ کو جمع کرائے تھے اور میزبان حکومت کو کاغذات کی منظوری کے لیے عام طور پر دو سے تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اکتوبر کے اختتام پر امریکا نے ڈونلڈ بلوم کو پاکستان کے لیے نیا نمائندہ نامزد کیا تھا، پاکستان پہلے ہی ان کے تقرر پر رضا مندی دے چکا ہے، اور توقع ہے کہ مارچ کے آخر تک ڈونلڈ بلوم کے اپنے عہدے کی ذمے داری سنبھالیں گے۔اس ہفتے کے شروع میں پینسلوینیا سے کانگریس مین ریپبلکن قانون ساز اسکاٹ پیری نے امریکی صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان پر سردار مسعود خان کی نامزدگی کو مسترد کرنے پر زور دیا تھا، اس خط نے ایک تنازع کو جنم دیا خاص طور پر بھارتی میڈیا میں۔
نوشکی میں بی ایل اے اور ایف سی کے مابین جنگ تیسرے روز ختم
پاکستانی میڈیا نے بھی اس خط کی خبر نشر کی تھی اور اس کے ممکنہ نتائج پر قیاس آرائیاں کی تھیں لیکن امریکی میڈیا نے اس معاملے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا تھا۔اپنے خط میں اسکاٹ پیری نے دعویٰ کیا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سردار مسعود خان کی منظوری کی درخواست روک دی ہے۔
تاہم اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس تنازع میں پڑنے سے انکار کردیا تھا، اسکاٹ پیری کے دعوے سے متعلق سوال کے جواب میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک طے شدہ سفارتی طریقہ کار کے مطابق ہم کسی سفارتی دستاویز کے اسٹیٹس سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔
پاکستانی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑی بھارتی ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد جعلی خبروں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستان کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے گھٹیا دعوے اور بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں۔سفارت خانے نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ نامزدگی کے خلاف خط امریکا میں جاری کیا گیا مگر اس کو نئی دہلی میں بھارتی میڈیا ہاؤوسز کو بھی تقسیم کیا گیا تھا۔
سفارت خانے کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ واشنگٹن میں بھارتی میڈیا کے نمائندوں کو بھی نظر انداز کیا گیا، شاید اس لیے کہ جنہوں نے خط جاری کیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ بھارتی صحافی وضاحت کے لیے امریکی حکام سے رابطہ کریں۔
بھارت نے سردار مسعود خان کی نامزدگی کے خلاف مہم کا آغاز گزشتہ سال کے آخر میں ان کی تعیناتی کے پہلی بار اعلان کے فوری بعد کیا تھا، سفیر سردار مسعود خان کثیرالاجہتی اور دو طرفہ سفارت کاری میں 40 سالہ تجربہ رکھنے والے اعلیٰ صلاحتیوں کے ماہر سفارت کار ہیں۔
سردار مسعود خان نے 1980 میں فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل جنیوا، چین اور نیویارک میں اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں، سردار مسعود خان نے بطور صدر آزاد کشمیر بھی خدمات انجام دیں، یہ ہی عہدہ ہے جس سے بھارت سیخ پا ہوا ہے۔